کومٹ پر آرگینک مالیکیولز کی موجودگی
19 نومبر 2014جرمن سائنسدانوں کے مطابق 10 برس کے سفر کے بعد کومٹ پر اترنے والے فیلے نے بیٹری ختم ہونے اور اس کے زمین سے رابطہ کٹنے سے قبل ان مالیکیولز کا کھوج لگایا۔ ان سائسندانوں کے مطابق ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ ان مالیکیولز میں ایسے پیچیدہ مرکبات بھی موجود تھے یا نہیں جو پروٹینز بناتے ہیں۔
یورپی خلائی جہاز روزیٹا کے ذریعے بھیجا جانے والا کیپسول فیلے بدھ 12 نومبر کو 67P/Churyumov-Gerasimenko نامی کومٹ پر کامیابی سے اترا تھا۔ اس کے لیے روزیٹا نے زمین سے 500 ملین کلومیٹر کا سفر طے کیا تھا۔ اس مشن کا مقصد یہ جاننا تھا کہ سیارے کیسے وجود میں آئے اور ممکنہ طور پر زندگی کیسے وجود میں آئی۔
سائنسدانوں کے مطابق یہ کیپسول ایک چٹان کے عقب میں اترا جس کی وجہ سے اس کے شمسی پینلز تک سورج کی روشنی نہ پہنچ سکی اور نتیجتاﹰ اس کی بیٹری ختم ہو گئی اور اس کا رابطہ زمین سے منقطع ہو گیا۔ تاہم لینڈنگ کے بعد ہفتہ 16 نومبر کو فیلے کا زمین سے رابطہ ٹوٹنے سے قبل اس کیپسول نے کومٹ کی سطح پر 57 گھنٹوں تک کیے جانے والے تجربات کے اعداد وشمار زمینی اسٹیشن کو بھیجے۔
سائنسدانوں کے مطابق دمدار ستاروں یا کومٹ کی زندگی ہمارے نظام شمسی کی زندگی کے برابر ہے اور ان پر پرانے نامیاتی سالمے محفوظ ہیں۔
جرمنی کے DLR ایرو اسپیس سینٹر کے ماہرین کے مطابق فیلے پر موجود گیسوں کا تجزیہ کرنے والے نظام COSAC نے لینڈنگ کے فوری بعد ہی اس کومٹ کی فضا میں موجود آرگینک مالیکیولز کا پتہ چلایا۔ مزید یہ کہ ایسے نامیاتی سالموں کا پتہ لگانے کے لیے اس کیپسول میں موجود نظام نے کومٹ کی سطح پر ڈرلنگ بھی کی تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ ڈرلنگ کے نتیجے میں حاصل ہونے والے نتائج COSAC کو تجزیے کے لیے منتقل ہو سکے تھے یا نہیں۔
اس کیپسول پر موجود ایک اور نظام MUPUS کا کام اس کومٹ کی کثافت یا Density اور اس کے درجہ حرارت اور مکینیکل خواص کا پتہ چلانا تھا۔ اس سے حاصل ہونے والے ابتدائی ڈیٹا سے سائنسدان اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس کومٹ کی سطح اس حد تک نرم نہیں ہے جس کا اندازہ لگایا گیا تھا۔
DLR میں MUPUS ٹیم کی سربراہی کرنے والے ماہر ٹِلمان سپوہن Tilman Spohn کے مطابق اگر فیلے کے شمسی پینلز تک سورج کی روشنی پہنچنا شروع ہو گئی تو اس کی بیٹریاں دوبارہ چارج ہو سکتی ہیں جس سے زمینی اسٹیشن کو مزید معلومات دستیاب ہو سکیں گی۔