فلپائن میں ناقص نظام صحت، خواتین کیسے قیمت ادا کر رہی ہیں؟
16 مئی 2020فلپائن میں محدود طبی وسائل کے باعث کووڈ انیس کے مریضوں کا ترجیحاتی بنیادوں پر علاج کیا جا رہا ہے۔ اس وجہ سے زچگی اور تولیدی صحت کی خدمات کی ضرورت مند خواتین کافی متاثر ہو رہی ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مارچ میں خاندانی منصوبہ بندی کی خدمات میں پچاس فیصد سے زیادہ کمی واقع ہوئی تھی۔ اُس وقت کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا تھا۔
فلپائن میں آبادی اور ترقی کمیشن کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر جان انتونیو پیریز کے بقول، ''پبلک ٹرانسپورٹ کی معطلی، محدود عملے اور کلینک کے مخصوص اوقات کی وجہ سے خواتین کو خاندانی منصوبہ بندی کی خدمات تک رسائی حاصل کرنا مشکل ہوگئی ہے۔‘‘ پیریز نے بتایا کہ اس خلا کو پر کرنے کے لیے حکومت ہیلتھ ورکرز کو گھر گھر بھیج کر خواتین کو مانع حمل کی ادویات فراہم کر رہی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ دیہی علاقوں کے لیے ٹیلی فون ہاٹ لائنز بھی مرتب کی گئی ہیں۔
کووڈ انیس سے اموات میں اضافہ
امریکا کی جان ہوپکنز یونیورسٹی کے مطابق، سولہ مئی تک، کووِڈ انیس کی وجہ سے فلپائن میں ہونے والی ہلاکتیں آٹھ سو سے تجاوز کر چکی ہیں جب کہ اس مرض سے متاثرہ افراد کی تعداد بھی بارہ ہزار اکیانوے ہو چکی ہے۔ حکام نے رواں ماہ مئی کے آخر تک دارالحکومت منیلا اور ہمسایہ شہروں میں لاک ڈاؤن کے اقدامات میں توسیع کر دی، جب کہ معیشت کا پہیہ چلانے کے لیے کچھ صنعتوں کو دوبارہ کام شروع کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیے: وائرس کی وبا سے مسجدیں اور گرجا گھر ویران
لاکھوں خواتین طبی خدمات سے منقطع
اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ (یو این ایف پی اے) نے اندازہ لگایا ہے کہ فلپائن جیسے کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں 47 ملین خواتین جدید مانع حمل کی ادویات تک رسائی حاصل نہیں کرسکیں گی، کیونکہ میڈیکل اسٹاف کی کمی کی وجہ سے خاندانی منصوبہ بندی کی خدمات کو محدود کردیا گیا ہے۔ اس عالمی ادارے کے اندازوں کے مطابق اگر لاک ڈاؤن کے اقدامات مزید چھ ماہ تک جاری رہے اور اس نوعیت کی صحت کی عدم دیکھ بھال کی وجہ سے سات ملین خواتین حاملہ ہوسکتی ہیں۔
نظام صحت پر بڑھتا بھوج
گزشتہ ماہ ایک چھیس سالہ خاتون کی موت ہو گئی۔ چھ ہسپتالوں نے اس کو داخل کرنے سے انکار کر دیا کیونکہ وہ یا تو مریضوں سے بھرے ہوئے تھے یا پھر کووڈ انیس کے مریضوں کے پھیلاؤ کے دباؤ کا شکار تھے۔ اس خاتون، کیترین بولاٹو نے گھر میں ہی بچے کو جنم دیا تھا لیکن زچگی کے بعد خون کی کمی سے اس کی موت ہوگئی۔
یہ بھی پڑھیے: ’ایک در بند، سو در کھلے‘
دریں اثناء تولیدی نظام سے منسلک حلقے ہسپتالوں سے مسترد کی گئی حاملہ خواتین کی بڑھتی تعداد کے لیے فوری کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ سینٹر برائے تولیدی حقوق کے مطابق ایک اور خاتون کو چار ہسپتالوں سے انکار کے بعد آخر کار پانچویں ہسپتال میں داخل کر لیا گیا۔ تاہم وہ لیبر روم میں ہی فوت ہوگئی۔ مرکز کا کہنا ہے کہ ان کے پاس حاملہ خواتین کو ہسپتالوں میں علاج سے انکار کی کم از کم تین اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
فلپائن کے صحت کے نظام میں کوتاہیاں طویل عرصے سے عیاں ہیں لیکن ماہرین کو خدشہ ہے کہ وبائی امراض کی وجہ سے حالات اور بھی خراب ہوتے جارہے ہیں۔
ع آ / ع ت (آنا سانتوس)