1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کوہ ساموئی کے ناریل کے پیڑ خطرے میں

2 جون 2011

تھائی لینڈ کے تفریحی مقام کوہ ساموئی میں ناریل کے پیڑوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے، جتنی کہ تھائی لینڈ بھر میں اور کہیں بھی نہیں۔ تاہم اب ایک پَر دار کیڑے کی وجہ سے یہ پیڑ تیزی سے ختم ہوتے جا رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/11SlD
تصویر: AP

کوہ ساموئی کے زرعی دفتر نے بتایا ہے کہ 228 مربع کلومیٹر کے رقبے پر پھیلے ہوئے اس جزیرے پر سن 2007ء کے اعداد و شمار کے مطابق ناریل کے تقریباً 2.2 ملین پیڑ تھے، جن میں سے ایک لاکھ پچیس ہزار سے زیادہ پیڑ اس کیڑے کی وجہ سے تباہ ہو چکے ہیں۔ اس دفتر کے مطابق کوکونٹ کی سالانہ پیداوار 20 فیصد کی کمی کے ساتھ اب محض تین ہزار کوکونٹس فی ہیکٹر رہ گئی ہے۔

دور دور تک پھیلے ہوئے ناریل کے پیڑ اِس جزیرے کی خوبصورتی کو دوچند کرتے ہیں لیکن یہاں بسنے والے چھ ہزار گھرانوں کے لیے یہ پیڑ اس سے کہیں زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ یہاں کے باسی ناریل برآمد کرتے ہیں اور اسی پر اُن کی گزر بسر ہے۔

تھائی لینڈ میں ناریل کئی طرح سے استعمال میں لایا جاتا ہے۔ یہ وہاں کے مقامی کھانوں کا ایک لازمی جزو ہے اور اس سے بہت سی دیسی ادویات بھی تیار کی جاتی ہیں۔ اِسے دیگر جڑی بوٹیوں کے ساتھ ملا کر زخموں پر لگایا جاتا ہے اور اِسے بالوں اور چہرے پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

Kokos Nüsse
ناریل کے پیڑوں کی تعداد میں اضافہ کرنے کے لیے اب ایک نیا پروگرام شروع کیا گیا ہےتصویر: AP

تاہم گزشتہ کچھ برسوں سے کوہ سومائی کے ناریل کے پیڑ اِس پَر دار کیڑے کی وجہ سے خطرے میں ہیں، جسے رینو سیروز یا گینڈا بھنورا کہا جاتا ہے۔ عام طور پر اس کا سائز دو سینٹی میٹر تک ہوتا ہے تاہم ناریل پر رہنے والا یہی بھنورا اس سے بھی بڑا ہوتا ہے۔ یہ اُن پھولوں میں انڈے دیتا ہے، جو ابھی پوری طرح سے کھلے نہیں ہوتے۔ یہ تازہ تازہ پتے کھاتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ جب وہ پیڑ مر جاتا ہے تو یہ کیڑے اپنے اگلے شکار پر منتقل ہو جاتے ہیں۔

اِس کیڑے کی وجہ سے ناریل کے پیڑوں والے رقبے میں گزشتہ چار برسوں کے دوران چھ فیصد کی کمی ہوئی ہے اور اب یہ رقبہ محض تیرہ ہزار چار سو نواسی ہیکٹر رہ گیا ہے۔ ماہرین کے مطابق اِس مسئلے کا ایک ہی حل ہے کہ متاثرہ پیڑ کو کاٹ دیا جائے اور کیڑوں کو مار دیا جائے۔

مقامی باشندوں کے خیال میں یہ کیڑا غالباً جنوبی افریقہ سے آیا ہے۔ کوہ ساموئی پر واقع ایک ہوٹل کے مالکان نے اپنے باغیچے کے لیے پیڑ بھی اپنے آبائی ملک جنوبی افریقہ سے منگوائے تھے اور یہ کیڑا غالباً اُنہی پیڑوں کے ساتھ اِس جزیرے پر پہنچا تھا۔

مقامی حکام نے جزیرے پر ناریل کے پیڑوں کی تعداد میں اضافہ کرنے کے لیے اب ایک نیا پروگرام شروع کیا ہے، جس میں سیاحوں سے اضافی رقم وصول کرتے ہوئے پیڑوں پر اُن کے نام درج کیے جاتے ہیں۔ اس پروگرام کی مدد سے حکام ایک ملین نئے پیڑ لگانے کی امید کر رہے ہیں۔

رپورٹ: امجد علی

ادارت: شامل شمس