1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کيا علاقائی کشيدگی کا خميازہ افغان مہاجرين بھگت رہے ہيں؟

عاصم سلیم
3 اکتوبر 2016

پاکستان ميں کئی دہائيوں سے مقيم افغان مہاجرين کی افغانستان واپسی کے عمل ميں گزشتہ چند ماہ کے دوران تيزی ديکھی گئی ہے۔ ماہرين کا کہنا ہے کہ علاقائی کشيدگی اور بھارت اور افغانستان کے بڑھتے ہوئے تعلقات اس پيشرفت کا سبب ہيں۔

https://p.dw.com/p/2QpXZ
Demonstration afghanischer Flüchtlinge in Quetta
تصویر: DW

پاکستان ميں اپنے آخری دنوں کو ياد کرتے ہوئے سميع اللہ بتاتا ہے کہ پہلے اس سميت ديگر افغان مہاجرين کو ’کابلی‘ کے نام سے پکارا جاتا تھا تاہم حاليہ دنوں ميں افغانستان اور بھارت کے مابين باہمی تعلقات کی بہتری کے سبب اب انہيں ’ہندو‘ کہہ کر مخاطب کيا جاتا ہے۔ سميع اللہ کی پيدائش شمالی پاکستان کے شہر مانسہرہ ميں ہوئی تھی اور بتيس برس پاکستان ميں گزرانے کے بعد بھی وہ اس ملک کا شہری نہيں بن سکا۔ وہ بتاتا ہے کہ وہ ايک درزی کی حيثيت سے ملازمت کيا کرتا تھا ليکن جب بازار ميں بھی اس کے ساتھ گالی گلوچ شروع ہو گئی، تو اس وقت اسے يہ احساس ہوا کہ شايد پاکستان چھوڑنے کا وقت آ گيا ہے۔

پاکستان ميں عوامی سطح پر بھارت کو ’دشمن ملک‘ مانا جاتا ہے۔ جوہری طاقت کے حامل ان دونوں پڑوسی ممالک کے مابين جاری حاليہ کشيدگی کے نتيجے ميں آج کل اس رجحان ميں اور بھی شدت پيدا ہو گئی ہے۔

بتيس سالہ سميع اللہ اب اپنے آبائی ملک افغانستان لوٹ چکا ہے۔ ان دنوں وہ اپنی دو بيويوں کے ہمراہ افغان دارالحکومت کابل کے قريب واقع ايک مہاجر کيمپ ميں مقيم ہے۔ سميع اللہ بتاتا ہے، ’’ہم سے يہ کہا گيا کہ ہم نے بھارت کے ساتھ دوستی کا انتخاب کيا ہے اور اسی ليے ہميں بھارت چلے جانا چاہيے۔ ہم گرفتاری سے بچنے کے ليے اپنی دکانوں اور گھروں ميں چھپے بيٹھے رہے۔‘‘

Afghanischer Flüchtling an der Grenze
تصویر: AP

افغانستان ميں تقريباً چار دہائيوں سے جنگ جاری ہے، جس دوران لاکھوں افغان مہاجرين نے پاکستان ميں سالہا سال سے پناہ لے رکھی ہے۔ اس وقت بھی وہاں قريب ڈيڑھ ملين رجسٹرڈ جب کہ ايک ملين کے لگ بھگ غير رجسٹرڈ افغان تارکين وطن موجود ہيں۔ اسلام آباد حکومت نے افغان مہاجرين کی واپسی کے حوالے سے گزشتہ برس ايک تازہ منصوبہ پيش کيا اور اس سال اس منصوبے پر عمل درآمد ميں تيزی ديکھی گئی۔ پھر افغانستان کے بھارت کے ساتھ تعلقات ميں بہتری کے تناظر ميں بھی حاليہ دنوں ميں افغان مہاجرين کی اپنے آبائی ملک واپسی کے عمل ميں تيزی نوٹ کی گئی ہے۔

اقوام متحدہ کے ہائی کميشن برائے مہاجرين يو اين ايچ سی آر کے اعداد و شمار کے مطابق رواں سال جون ميں 1,433 مہاجرين نے واپس افغانستان کا رخ کيا۔ جولائی ميں يہ تعداد 11,416 رہی اور اگست ميں خاطر خواہ اضافے کے ساتھ 60,743 افغان شہريوں نے اپنے آبائی ملک کا رخ کيا۔ سن 2016 ميں اب تک قريب نوے ہزار افغان شہری اپنے ملک لوٹ چکے ہيں، جن کی بھاری اکثريت پاکستان سے لوٹی ہے۔ امکان ہے کہ سال کے اختتام تک يہ تعداد 220,000 تک پہنچ جائے گی۔

 

پاکستان کے حوالے سے ايسی رپورٹيں بھی ذرائع ابلاغ پر نشر ہوتی رہيں کہ وہاں افغان مہاجرين کو ايک منظم انداز سے ہراساں کيا جاتا ہے۔ تاہم حکام ايسی تمام رپورٹوں کو مسترد کرتے ہيں اور ان کا کہنا ہے کہ ملک ميں اقتصادی مسائل کے باوجود افغان شہريوں کی مدد کر کے پاکستان نے تو دراصل بڑے کھلے دل کا مظاہرہ کيا ہے۔ اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کوئٹہ ميں پاکستانی فوج کے ايک اہل کار کا کہنا ہے، ’’يہ لوگ ہمارے مہمان تھے اور ہم نے انہيں اپنے گھر ميں جگہ دی۔ افغانستان کو اس کے ليے ہمارا شکر گزار ہونا چاہيے۔ اس کے برعکس وہ بھارت سے قريب تر ہوتے جا رہے ہيں، جو ہماری پيٹھ ميں خنجر گھونپنے کے برابر ہے۔‘‘ اسی سلسلے ميں بات چيت کے دوران کابل ميں پاکستانی سفارت خانے کے ترجمان اختر منير کا کہنا ہے کہ حکام اب بس يہی چاہتے ہيں کہ افغان مہاجرين عزت اور احترام کے ساتھ اپنے وطن لوٹيں۔ ان کے بقول مہاجرين کی واپسی کا افغانستان کے بھارت کے ساتھ بڑھتے ہوئے روابط سے کوئی تعلق نہيں۔

سميع اللہ اور پاکستان سے لوٹنے والے ديگر افغان مہاجرين جو شکايات بيان کر رہے ہيں وہ اس بات کی عکاسی کرتی ہيں کہ سفارتی سطح پر ہونے والی اونچ نيچ کس قدر تيزی سے مہاجرين کو متاثر کر سکتی ہے۔