1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کُرم میں مزید 13 ہلاکتیں

30 نومبر 2024

پاکستان کے شمال مغربی حصے میں فرقہ وارانہ فسادات کے نتیجے میں گزشتہ دو دنوں کے دوران مزید 13 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ یہ بات ایک مقامی حکومتی اہلکار کی طرف سے بتائی گئی ہے۔ حالیہ فسادات میں اب تک 124 ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔

https://p.dw.com/p/4nbKg
کرم میں گزشتہ ہفتے مارے جانے والوں کی قبروں پر لوگ جمعہ ہیں۔
پاکستان کے شمال مغربی حصے میں فرقہ وارانہ فسادات کے نتیجے میں مزید 13 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔تصویر: REUTERS

پاکستان سُنی مسلمانوں کی اکثریت رکھنے والا ملک ہے تاہم صوبہ خیبر پختونخوا کے افغان سرحد کے قریب واقع ضلع کُرم میں شیعہ مسلمانوں کی بڑی تعداد آباد ہے اور وہاں شیعہ اور سنی مسلمانوں کے درمیان گزشتہ کئی دہائیوں میں فسادات ہوتے رہے ہیں۔

فرقہ وارانہ تشدد: کرم میں 110 سے زائد اموات کے بعد سیزفائر

فرقہ وارانہ جھڑپوں کے بعد کرم میں صورت حال کیسی ہے؟

تشدد کا تازہ سلسلہ گزشتہ جمعرات کو پولیس کی حفاظت میں سفر کرنے والےدو مختلف قافلوں پر فائرنگ کے بعد شروع ہوا جس کے نتیجے میں 40 سے زیادہ افراد مارے گئے۔

گزشتہ 10 دن سے جاری اس لڑائی میں یہ پورا علاقہ مفلوج ہو کر رہ گیا ہے اور اہم سڑکیں اور موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس معطل ہے۔

رواں برس 13 اکتوبر کو فرقہ وارانہ فسادات میں مارے جانے والے 16 افراد کی نماز جنازہ اد کی جا رہی ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیم 'ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان‘ کے مطابق رواں برس جولائی سے اکتوبر کے دوران اس علاقے میں فرقہ وارانہ واقعات میں 79 ہلاکتیں ہوئیں۔تصویر: Dilawer Khan/AFP/Getty Images

کُرم کے ایک مقامی اہلکار نے آج ہفتے کے روز ہلاکتوں کی تعداد 124 بتائی ہے جن میں گزشتہ دو دنوں کے دوران ہونے والی 13 ہلاکتیں بھی شامل ہیں۔ اس اہلکار کے مطابق ہفتے کی صبح تک جاری رہنے والی اس لڑائی میں 50 سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔

اس اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ''دونوں اطراف کے درمیان اعتماد کی شدید کمی ہے اور دونوں قبیلوں میں سے کوئی بھی سیز فائر کے حکومتی احکامات پر عمل کرنے کو تیار نہیں ہے۔‘‘

پارہ چنار کے ایک ہسپتال میں زخمی کا علاج کیا جا رہا ہے۔
تشدد کا تازہ سلسلہ گزشتہ جمعرات کو پولیس کی حفاظت میں سفر کرنے والے دو مختلف قافلوں پر فائرنگ کے بعد شروع ہوا جس کے نتیجے میں 40 سے زیادہ افراد مارے گئے۔تصویر: Dilawar Hussain/AP/picture alliance

اس اہلکار کا مزید کہنا تھا، ''پولیس نے بتایا ہے کہ بہت سے لوگ اس تشدد کے سبب علاقہ چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں مگر امن وامان کی خراب ہوتی ہوئی صورتحال کے سبب یہ ناممکن بنا ہوا ہے۔‘‘

گزشتہ اختتام ہفتہ پر صوبائی حکومت کی طرف سے ایک سات روزہ سیز فائر معاہدے کا اعلان کیا گیا تھا مگر اس پر عملدرآمد جاری نہ رہ سکا۔ بدھ 27 نومبر کو ایک اور دس روزہ  امن  معاہدہ طے پایا مگر وہ بھی لڑائی کے سبب برقرار نہیں رہ سکا۔

صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں ایک سینیئر سکیورٹی اہلکار نے بھی اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر 124 ہلاکتوں کی تصدیق کی: ''مزید ہلاکتوں کا خدشہ ہے... صوبائی حکومت کی طرف سے امن کی بحالی کی کسی بھی کوشش پر مکمل عملدرآمد نہیں ہو سکا۔‘‘

کرم ایجنسی میں ایک احتجاج کا منظر
ضلع کُرم میں شیعہ مسلمانوں کی بڑی تعداد آباد ہے اور وہاں شیعہ اور سنی مسلمانوں کے درمیان گزشتہ کئی دہائیوں میں فسادات ہوتے رہے ہیں۔تصویر: Arif Ali/AFP

افغان سرحد کے قریب واقع ضلع کُرم قبل ازیں پاکستانی وفاق کے زیر انتظام قبائلی  علاقوں  میں شامل تھا۔ ان علاقوں کو 2018ء میں صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم کر دیا گیا تھا۔

انسانی حقوق کی تنظیم 'ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان‘ کے مطابق رواں برس جولائی سے اکتوبر کے دوران اس علاقے میں فرقہ وارانہ واقعات میں 79 ہلاکتیں ہوئیں۔‘‘

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ان لڑائیوں کی اکثر وجہ اس پہاڑی علاقے میں زمین کی ملکیت کے معاملات بنتے ہیں جو پھر فرقہ وارانہ رُخ اختیار کر لیتی ہیں۔

ا ب ا/ک م (اے ایف پی)