کِم جونگ اُن کے انکل کو سزائے موت دے دی گئی
13 دسمبر 2013شمالی کوریا کے حکام نے جانگ سونگ تھائیک کو سزائے موت دیے جانے کی تصدیق کی ہے۔ وہ کِم جونگ اُن کے بعد ملک کے دوسرے طاقتور شخص تھے۔ دو برس قبل کِم جونگ اُن کے والد کے انتقال کے بعد اسے شمالی کوریا میں پیش آنے والا سب سے بڑا واقعہ قرار دیا جا رہا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق شمالی کوریا کی سرکاری نیوز ایجنسی کے سی این اے کا کہنا ہے: ’’ڈی پی آر کے (ڈیموکریٹک پیپلز ری پبلک آف کوریا)کی وزارتِ برائے ریاستی سکیورٹی کے فوج کے خصوصی ٹریبیونل نے ان کے لیے سزائے موت کا فیصلہ سنایا جس پر فوری عمل درآمد کا حکم بھی دیا گیا۔‘‘
روئٹرز کے مطابق یہ واضح نہیں کہ انہیں کس طریقے سے سزائے موت دی گئی ہے۔
کے سی این اے کے مطابق: ’’ملزم جانگ نے طویل عرصے سے ناپسندیدہ فورسز کو اکٹھا کیا اور جدید دَور کے ایک سرکش گروہ کی بنیاد رکھی جس کے وہ سربراہ تھے۔‘‘
کے سی این اے نے کِم کے والد اور دادا کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: ’’عرصہ پہلے، جانگ غلیظ سیاسی عزائم رکھتے رہے ہیں۔ تاہم انہوں نے کِم اِل سنگ اور کِم جونگ اِل کی زندگی میں کبھی سر اٹھانے کی جرأت نہیں کی تھی۔‘‘
اس خبر رساں ادارے کا مزید کہنا ہے: ’’جب انقلاب کی باگ ڈور نئی نسل نے سنبھالی، اس تاریخی دَور میں انہوں نے یہ سوچتے ہوئے اپنا اصلی رنگ دکھانا شروع کر دیا کہ یہ ان کے مزموم عزائم کو پورا کرنے کا وقت ہے۔‘‘
سرکاری اخبار روڈونگ سِنمُن نے جمعے کی اشاعت میں یانگ کی ایک تصویر شائع کی ہے جس میں انہیں ہتھکڑیاں لگی ہوئی ہیں۔ انہیں یونیفارم پہنے ہوئے محافظوں نے پکڑ رکھا ہے۔
قبل ازیں رواں ہفتے شمالی کوریا نے جانگ کو تمام عہدوں سے فارغ کر دیا تھا۔ انہیں حکمران جماعت ورکرز پارٹی سے بھی نکال دیا گیا تھا۔ ان پر حد سے زیادہ شراب نوشی، عورتوں سے ناجائز تعلقات رکھنے اور ریاست کے مالیاتی نظام میں بدعنوانی کے ارتکاب کے الزام بھی لگائے گئے تھے۔
جانگ کو سزائے موت دیے جانے سے قبل ذرائع ابلاغ کو غیر مصدقہ خبریں سامنے آئیں کہ ان کا ایک معاون جنوبی کوریا کے ساتھ جا ملا ہے۔ تاہم جنوبی کوریا کے خفیہ ادارے نے ایسے کسی انحراف سے لاعلمی ظاہر کی ہے۔