کٹاس راج کے مندر، ایک عظیم ثقافتی ورثہ
پاکستانی صوبہ پنجاب کے ضلع چکوال میں چؤا سیدن شاہ کے نزدیک کوہستان نمک کے سلسلے میں کٹاس نامی گاؤں ہندوؤں کا انتہائی تاریخی اور مقدس مقام ہے، جس کا ذکر تین صدی قبل از مسیح میں لکھی گئی مہابھارت تک میں بھی ملتا ہے۔
ہندو آبادی ناپید
شری کٹاس راج کہلانے والی یہ انتہائی قدیم ہندو مذہبی باقیات چکوال شہر سے قریب تیس کلو میٹر جنوب کی طرف کلر کہار روڈ پر واقع ہیں۔ تقسیم ہند سے قبل یہاں ہندوؤں کی اچھی خاصی آبادی تھی لیکن انیس سو سینتالیس میں یہاں کے تمام ہندو نقل مکانی کر کے بھارت چلے گئے تھے۔ کٹاس راج ٹیمپل کمپلیکس کے مندروں میں سے رام چندر مندر، ہنومان مندر اور شیو مندر خاص طور پر نمایاں ہیں۔
متعدد مندروں پر مشتمل کمپلیکس
کٹاس راج ٹیمپل کمپلیکس کوئی ایک مندر نہیں بلکہ کم از کم سات ہندو مندروں سمیت سکھوں کے ساتھ ساتھ بدھ مت کے پیرو کاروں کے مقدس مقامات اور تاریخی عبادت گاہوں کا ایک ایسا سلسلہ ہے، جس کا انتظام متروکہ وقف املاک بورڈ اور محکمہ آثار قدیمہ پنجاب کے پاس ہے۔ مذہبی احترام کی وجہ سے مندروں میں داخل ہونے والے سیاحوں کے لیے لازم ہے کہ وہ ننگے پاؤں اور سر ڈھانپ کر آئیں۔
ہندو دیوتا شیو کے آنسو
ہندو مذہبی روایات کے مطابق جب شیو نامی دیوتا کی بیوی ستی کا انتقال ہوا تو شیو اتنا روئے کہ ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کی ایک نہ ختم ہونے والی لڑی جاری ہو گئی۔ اس طرح ہندوؤں کے لیے مقدس دو تالاب وجود میں آئے، جن میں سے ایک پشکار (اجمیر میں) ہے اور دوسرا کٹکشا۔ سنسکرت میں کٹکشا کا مطلب آنسوؤں کی لڑی ہے۔ یہی لفظ کٹکشا صدیوں بعد بدلتا بدلتا اب کٹاس بن چکا ہے۔
سب سے اونچے مندر سے نظر آنے والا منظر
شری کٹاس راج کی یہ تصویر وہاں کے سب سے اونچے مندر سے لی گئی ہے، جس میں مرکزی تالاب، اس کے ارد گرد قائم مندر، حویلی، بارہ دری اور پس منظر میں موجود مندر کا مینار تک بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ تصویر کے بائیں کونے میں اوپر کی طرف مقامی مسلمانوں کی ایک مسجد بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ ایک ہندو روایت کے مطابق کوروں کے ساتھ جنگ میں شکست کے بعد پانڈوں نے کٹاس میں بارہ سال گزارے تھے اور متعدد مندر تعمیر کروائے تھے۔
قدرتی چشمے
کٹاس کی شہرت کی ایک بہت اہم وجہ وہ قدرتی چشمے بھی ہیں، جن کے پانیوں کے ایک دوسرے کے ساتھ مل جانے سے گنیا نالہ وجود میں آیا تھا۔ کٹاس راج کے تالاب کی گہرائی تیس فٹ ہے اور یہ تالاب آہستہ آہستہ خشک ہوتا جا رہا ہے۔ شری کٹاس راج کے مندروں کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ تالاب کے ارد گرد یا قریب ہی یہ مرکزی مندر اور دیگر عبادت خانے دو دو کے جوڑوں کی شکل میں بنائے گئے ہیں۔
پہاڑی علاقے میں مندر اور معبد
کوہستان نمک کا پورا علاقہ چھوٹی بڑی پہاڑیوں پرمشتمل ہے، جہاں صدیوں پہلے زیادہ تر ہندو مندر ایسی پہاڑی چوٹیوں پر بنائے گئے کہ ان تک پہنچنے کے لیے بل کھاتی پتھریلی سیڑھیوں کا ایک طویل سلسلہ عبور کرنا پڑتا تھا۔ یہ صورت حال آج تک قائم ہے۔ اس تصویر میں کٹاس راج کا مرکزی مندر اور اس کے قریب ہی دیگر معبد نظر آ رہے ہیں۔
دیواروں پر صدیوں پرانے نقش و نگار
یہ انتہائی خوبصورت نقش و نگار اور تصاویر کے ذریعے رنگا رنگ عکاسی اس حویلی کی اندرونی دیواروں پر نظر آنے والے مناظر ہیں، جو یہاں صدیوں قبل سکھ جنرل ہری سنگھ نلوا نے تعمیر کروائی تھی۔ اس حویلی کے دیوان خانے اور زنان خانے کی باقیات آج بھی حیران کن حد تک اچھی حالت میں موجود ہیں۔ ان قدیم باقیات کے مذہبی دوروں کے لیے آج بھی دنیا بھر سے ہر سال ہزارہا ہندو اور سکھ یاتری کٹاس راج کا رخ کرتے ہیں۔
ہندوؤں کا ہاتھی دیوتا گھنیش
جنرل ہری سنگھ نلوا کی طرف سے بنوائی گئی حویلی کے دیوان خانے کی ایک دیوار پر نظر آنے والی ہندوؤں کے ہاتھی دیوتا گھنیش کی ایک تصویر، جس میں گھنیش کو مختلف جانوروں کو کھانے کے لیے کچھ پیش کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ ایسی ہر تصویر کسی نہ کسی دیومالائی ہندو مذہبی روایت کی عکاسی کرتی ہے۔ کٹاس راج کے مندروں کی تعمیر میں زیادہ تر چونا استعمال کیا گیا تھا۔
نلوا کی حویلی کے جھروکے
سکھ جنرل نلوا نے کٹاس راج میں جو حویلی تعمیر کروائی، اس کے چند جھروکے آج بھی کافی حد تک اپنی اصلی حالت میں موجود ہیں۔ اس تصویر میں دیوان خانے کے ایک جھروکے کی اندرونی دیواروں پر کی گئی رنگا رنگ نقش نگاری اور اس جھروکے سے نظر آنے والا کٹاس راج کا منظر دونوں دیکھے جا سکتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ کٹاس راج کا قدیم ترین اسٹوپا اشوک اعظم نے تعمیر کروایا تھا۔
بیتی صدیوں کے اثرات
اس تصویر میں کٹاس راج کی کئی عمارات بیک وقت دیکھی جا سکتی ہیں، جن میں مندر بھی ہیں،حویلی بھی اور کئی دروازوں والی قیام گاہیں بھی۔ کئی عمارات کے مختلف حصوں کے ارد گرد آہنی جنگلے محکمہ آثار قدیمہ پنجاب نے لگوائے، جن کا مقصد اس عظیم اور تاریخی ورثے کو وقت کے ہاتھوں مزید ٹوٹ پھوٹ سے روکنا تھا۔ اس تصویر میں نظر آنے والی عمارات پر بیتی صدیوں کے گہرے اثرات واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔
مخصوص طرز تعمیر والی بارہ دری
کٹاس راج کی اپنے مخصوص طرز تعمیر اور گنبد والی یہ بارہ دری دیگر مندروں کے مقابلے میں کئی صدیاں بعد تعمیر کی گئی تھی۔ اس لیے اس بارہ دری کی حالت دیگر مندروں اور معبدوں کے مقابلے میں بہت اچھی ہے۔ ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق کٹاس راج کے اکثر چھوٹے مندر قریب نو سو برس قبل تعمیر کیے گئے تھے لیکن ان میں سے اولین کی چھٹی صدی عیسوی میں ہندو شاہیہ کے دور میں تعمیر کے شواہد بھی موجود ہیں۔
مذہبی اہمیت اور عسکری ضرورت
محکمہ آثار قدیمہ کے مطابق اس تصویر میں سامنے نظر آنے والا مندر بھی قریب نو سو سال قبل لیکن کافی بعد میں تعمیر کیا گیا تھا۔ لیکن پس منظر میں پہاڑی پر قائم قلعہ نما عمارت اس سے بھی کافی عرصہ قبل تعمیر کی گئی تھی، جو بنیادی طور پر عسکری نوعیت کی ایک عمارت تھی۔ تصویر میں دائیں طرف ایک بدھ اسٹوپا کی طرز پر تعمیر کردہ چھوٹی سی عبادت گاہ اس دور کی تعمیرات پر بدھ مت کے اثرات کا پتہ دیتی ہے۔
اسٹوپا نما مندر میں شیو لِنگ
اس طاقچوں والے اسٹوپا نما مندر میں ہندو دیوتا شیو سے منسوب شیو لِنگ رکھا ہوا ہے، جس کی ہندو پوجا کرتے ہیں۔ آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کی انیسویں صدی کے آخر میں تیارکردہ دستاویزات کے مطابق کٹاس راج چھٹی صدی عیسوی سے لے کر بعد کی کئی صدیوں تک ہندوؤں کا ایک انتہائی مقدس مقام تھا۔ تاریخی شواہد موجود ہیں کہ کٹاس راج ان قدیم ہندو مندروں میں سے ایک تھا، جہاں پہلی مرتبہ شیو لِنگ کی پوجا شروع کی گئی تھی۔
مونگے کی چٹانیں اور فوصل شدہ آبی حیات
شری کٹاس راج کے مندروں اور دوسری عمارات کے کئی حصوں میں مونگے کی چٹانوں، جانوروں کی ہڈیوں اور فوصل شدہ آبی حیات کی ایسی قدیم باقیات دیکھی جا سکتی ہیں، جو یہ ظاہر کرتی ہیں کہ ان صدیوں پرانے آثار کی تعمیر میں سمندری یا دریائی پانی نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ کٹاس راج میں اس تصویر میں نظر آنے والے فوصلز کی طرح کے بہت سے قدیم حیاتیاتی نمونے دیکھنے میں آتے ہیں۔
شیو اور ستی کی رہائس گاہ
متعدد ہندو دیو مالائی داستانوں کے مطابق شیو نامی دیوتا نے ستی نامی دیوی کے ساتھ اپنی شادی کے بعد کئی سال کٹاس راج میں ہی گزارے تھے۔ ہندو عقیدے کے مطابق کٹاس راج کے تالاب میں نہانے والوں کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ دو ہزار پانچ میں جب بھارت کے سابق نائب وزیر اعظم لال کرشن ایڈوانی پاکستان آئے تھے تو انہوں نے خاص طور پر کٹاس راج کی یاترا کی تھی۔