1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کپڑوں کے برانڈ ایشیا کے ورکرز کے حقوق یقینی بنائیں

افسر اعوان26 مئی 2016

کپڑوں کے عالمی برانڈز کو ایشیا میں ان کئی ملین ورکرز کی صورتحال بہتر بنانے کی ذمہ داری لینی چاہیے جنہیں سپلائرز کی طرف سے انتہائی کم اجرت ملتی ہے اور ان کی حکومتیں بھی انہیں نظر انداز کرتی ہیں۔

https://p.dw.com/p/1IueE
تصویر: Getty Images/AFP/M. Zaman

یہ بات ان ورکرز کے حقوق اور ان کے لیے اجرتیں بہتر کرنے کے لیے مہم چلانے والے ایک کارکن نے انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن ILO کی کانفرنس سے قبل کہی ہے۔ تھامس روئٹرز فاؤنڈیشن کے ایک جائزے کے مطابق دنیا بھر میں گارمنٹس کی مجموعی پیداوار کا 60 فیصد ایشیائی ممالک میں تیار ہوتا ہے۔ ایشیا میں اس انڈسٹری میں براہ راست ملازمین کی تعداد 15 ملین سے زائد بنتی ہے جن میں سے زیادہ تر خواتین ہیں۔

ایشیا فلور ویج الائنس (AFWA) نامی ایک سپلائی چین لابی گروپ کی کوارڈینیٹر انانیا بھٹاچارجی کے مطابق اس صنعت سے وابستہ ورکرز کا یہ حق بنتا ہے کہ انہیں زندگی گزارنے کے لیے درکار مناسب اجرت ملے کیونکہ زیادہ تر ایشیائی ممالک نے ان کے لیے اجرتوں کا جو معیار رکھا ہوا ہے وہ انہیں غربت سے نکلنے میں مدد نہیں دے سکتا۔

بھٹاچارجی نے تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کو بتایا، ’’سپلائی چین کی پیچیدگی کو دراصل برانڈز کے لیے معذرت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے کہ ان کا ورکرز کو مناسب اُجرتیں ملنے کے معاملہ ان کے اختیار میں نہیں ہے۔‘‘

چین گارمنٹس کے حوالے سے دنیا کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے مگر وہاں اجرتیں نسبتاﹰ زیادہ ہیں جس کی وجہ سے دنیا بھر کے برانڈز کم قیمت کے لیے متبادل ممالک کی تلاش میں ہیں جیسے بنگلہ دیش، بھارت، پاکستان اور سری لنکا وغیرہ۔ ان ممالک کے سپلائرز پر اس لیے اب کافی دباؤ ہے کہ وہ اپنی مصنوعات کی قیمتوں کو کم کرنے کے لیے جلد سے جلد لاگت پر اٹھنے والے اخراجات میں کمی لائیں۔

ایشیا میں گارمنٹ انڈسٹری میں براہ راست ملازمین کی تعداد 15 ملین سے زائد بنتی ہے جن میں سے زیادہ تر خواتین ہیں
ایشیا میں گارمنٹ انڈسٹری میں براہ راست ملازمین کی تعداد 15 ملین سے زائد بنتی ہے جن میں سے زیادہ تر خواتین ہیںتصویر: AFP/Getty Images/T. Chhin Sothy

کلین کلوتھز کیمپین نامی مہم کا جو AFWA کا بھی حصہ ہے، کہنا ہے کہ گارمنٹ انڈسٹری میں کم اجرتین مزدوروں کی بنیادی ضروریات پوری نہیں کر پاتیں جس کی وجہ سے انہیں ضرورت سے زیادہ اوور ٹائم لگانا پڑتا ہے، ان کی صحت متاثر ہوتی ہے اور وہ اخراجات کم کرنے کے لیے اپنے خاندان سے دور زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

گارمنٹ انڈسٹری کے ورکرز کے حقوق کے لیے مہم چلانے والوں کا مطالبہ ہے کہ انہیں ہفتہ وار کام کے نتیجے میں اس حد تک مناسب اجرت ملنی چاہیے جو نہ صرف ان کے خاندان کی بنیادی ضروریات پوری کرنے جن میں رہائش، تعلیم اور صحت وغیرہ شامل ہیں بلکہ ان کے پاس کسی ہنگامی صورتحال کے لیے کچھ بچت بھی ہونی چاہیے۔

انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کا سالانہ اجلاس 30 مئی سے جنیوا میں شروع ہو رہا ہے جو 10 جون تک جاری رہے گا۔ آئی ایل او کی طرف سے ’لِونگ ویج‘ یعنی مناسب زندگی گزارنے کے لیے ضروری اجرت کو ’بنیادی انسانی حق‘ قرار دیا جا چکا ہے۔ تاہم ایشیا بھر جو کم سے کم اجرتیں دی جا رہی ہیں وہ اس سطح سے کہیں کم ہیں جو انسان کو زندگی گزارنے کے لیے درکار ہوتی ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ حکومتوں کی طرف سے جو کم سے کم اجرتوں کا معیار مقرر کیا جاتا ہے اس سے بھی گارمنٹ انڈسٹری سے وابستہ مزدوروں کے معیار زندگی کو بہتر کرنے میں کوئی مدد نہیں ملتی۔