’کھیل بند دروازوں کی کنجی‘
23 جولائی 2017نادیہ ندیم ویمن یورو ٹورنامنٹ میں شرکت کرنے والی ڈنمارک کی ٹیم کا ایک اہم ستون قرار دی جا رہی ہیں۔ وہ ہالینڈ میں ہونے والے اس ٹورنامنٹ میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے کی خاطر تیار ہیں۔ انتیس سالہ نادیہ اپنی والدہ اور چار بہنوں کے ساتھ افغانستان سے فرار ہو کر سن 2000 میں یورپ پہنچنے میں کامیاب ہو گئی تھیں۔ ان کے والد کو طالبان باغیوں نے ہلاک کر دیا تھا، جس کے بعد ان کی فیملی نے افغانستان کو خیرباد کہنے کا منصوبہ بنایا تھا۔
جرمنی میں پاکستانی، افغان مہاجرین: ’کرکٹ صرف ایک کھیل نہیں‘
جرمنی میں مہاجرین کی بوریت دور کرنے کا نیا طریقہ
مہاجرین کی آمد کے بعد جرمنی میں بھی کرکٹ کا جنون
ڈنمارک کے ہیلسم ٹریننگ کیمپ میں نادیہ نے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’ افغانستان سے فرار ہونے کے علاوہ ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں تھا کیونکہ وہاں رہنا ہمارے لیے خطرات سے پُر تھا۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ انسانوں کے اسمگلروں کی مدد سے وہ اور ان کی فیملی ڈنمارک پہنچنے میں کامیاب ہوئی تھی۔ نادیہ نے پہلی مرتبہ فٹ بال ڈنمارک پہنچ کر ہی کھیلا۔
نادیہ نے بتایا کہ جب وہ ڈنمارک کے ایک مہاجر کیمپ میں رہ رہی تھی تو ان کے پاس کرنے کو کچھ نہیں تھا اور بوریت دور کرنے کی خاطر اسں نے فٹ بال کھیلنا شروع کیا.
نادیہ نے بتایا، ’’ میں فارغ تھی، مہاجر کیمپ کے ساتھ ہی ایک بڑا کلب تھا، جہاں میں نے فٹ بال کھیلنا شروع کیا۔‘‘
نادیہ نے جلد ہی اس کھیل میں اپنا نام بنا لیا۔ وہ ڈنمارک کے مختلف کلبوں میں کھیل چکی ہیں جبکہ نیو جرسی کے سکائی بلیو نامی کلب میں اپنے چناؤ کو وہ اپنے خوابوں کی تکمیل قرار دیتی ہیں۔ انہوں نے سن 2014 میں اس کلب میں شمولیت اختیار کی تھی۔
اسٹرائیکر نادیہ سن 2009 میں ڈنمارک کی خواتین کی قومی ٹیم میں منتخب کی گئی تھیں۔ انہوں نے بائیس میچوں میں ڈنمارک کی نمائندگی کی ہے جبکہ اس دوران نو گول اسکور کیے ہیں۔ ان میں سے آٹھ گول انہوں نے سن 2017 کے دوران کیے۔ ان کا کہنا ہے کہ فٹ بال میں ان کی دلچسپی بڑھ رہی ہے اور اب وہ میدان میں خود کو زیادہ بہتر محسوس کرتی ہیں،
طب کے شعبے میں تعلیم حاصل کرنے والی نادیہ کا کہنا ہے کہ اگرچہ وہ امریکا اور ڈنمارک میں رہتی ہیں تاہم اپنا آبائی وطن افغانستان اب بھی ان کی یادوں میں تازہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی زمانے میں افغانستان میں خواتین ایتھلیٹس کا سوچنا ناممکن تھا لیکن اب حالات میں تبدیلی آ رہی ہے۔ انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ افغانستان کے حالات مزید بہتر ہو جائیں گے تب وہ افغانستان میں فٹ بال کے فروغ کے لیے بھی عملی کاوشیں کریں گی۔