کیا افغانستان کو سی پیک میں شامل کیا جا سکتا ہے؟
26 دسمبر 2017منگل چھبیس دسمبر کو بیجنگ میں پاکستان، افغانستان اور چین کے وزرائے خارجہ کے ایک اجلاس کے بعد صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے چینی وزیر خارجہ وانگ یی نے کہا کہ ان کا ملک اور پاکستان سی پیک کو افغانستان تک بڑھا دینے کے امکان کا جائزہ لیں گے۔ چینی وزیر خارجہ کے بقول ستاون بلین ڈالر مالیت کے اس منصوبے سے پورے خطے کو فائدہ پہنچ سکتا ہے اور مجموعی ترقی کی رفتار بھی تیز تر بنائی جا سکتی ہے۔ اس ملاقات میں پاکستانی وزیر خارجہ خواجہ آصف اور ان کے افغان ہم منصب صلاح الدین ربانی شریک ہوئے۔
پاکستانی اور افغان وزرائے خارجہ چین میں
پاکستان: تجارت کے ليے ڈالر کی جگہ يوآن کے استعمال پر غور
' چین گوادر کو عسکری مقاصد کے لیے استعمال کر سکتا ہے ‘
پاکستان میں سیاسی مبصرین نے چینی وزیر خارجہ کی اس تجویزکا خیر مقدم کیا ہے۔ تاہم چند تجزیہ نگاروں کے خیال میں یہ کام اتنا آسان نہیں ہو گا۔ معروف دفاعی تجزیہ نگار جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب نے اس تجویز کا خیر مقدم کرتے ہوئے ڈوئچے ویلے کوبتایا، ’’خطے کے تمام ممالک امن چاہتے ہیں تاکہ معاشی ترقی کی راہ ہموار ہو سکے۔ تاہم بھارت اور امریکی عزائم ان مقاصد کے حصول میں بہت بڑی رکاوٹ ہیں۔ پاکستان خلوص کے ساتھ افغانستان سے بہتر تعلقات چاہتا ہے اور اگر انٹیلیجنس شیئرنگ اور بارڈر مینجمنٹ سے متعلق کابل حکومت کے ساتھ کوئی معاہدہ طے ہو جائے اور دونوں ملکوں کے باہمی معاملات میں بھی واضح بہتری آ جائے، تو افغانستان اور خطے کے دوسرے ممالک باآسانی سی پیک کا حصہ بن سکتے ہیں۔ اگر کابل حکومت طویل المدتی مفادات کو پیش نظر رکھے، تو اس منصوبے میں افغانستان کی شمولیت خود اس کے لیے بھی بہت بہتر رہے گی۔ آج انہیں امریکا پیسے دے رہا ہے، لیکن کل جب ایسا نہیں ہو گا، تو پھر افغان معیشت کیسے چلے گی؟‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’خطے کے سارے ممالک تعاون چاہتے ہیں۔ بیجنگ چاہتا ہے کہ افغانستان، وسطی ایشیا، ایران اور روس بھی سی پیک سے فائدہ اٹھائیں۔ چین کا فائدہ یہ ہے کہ گوادر میں بہت زیادہ کارگو کو ہینڈل کیا جا سکتا ہے۔ جتنے زیادہ ممالک ہوں گے، چین کو اتنا ہی زیادہ فائدہ ہوگا۔ اس لیے چین نہ صرف افغانستان کو بلکہ وسطی ایشیائی ممالک کو بھی اس منصوبے کا حصہ بنانے کا خواہش مند ہے۔ افغانستان میں داعش کے آنے سے طالبان، پاکستان، ایران، روس، چین اور وسطی ایشیائی ممالک مزید قریب آ گئے ہیں اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ وہ خطے میں استحکام کے لیے مل کر کام کریں اور سی پیک کے ذریعے مشترکہ معاشی ترقی میں بھی باہمی معاونت کریں۔‘‘
سی پیک منصوبے میں اربوں روپے کی خردبرد
سی پیک پاور منصوبوں کے اضافی اخراجات، بوجھ صارفین پر
پاک چین فرینڈشپ ہائی وے کیا ’ون وے روڈ‘ ہے؟
دوسری طرف افغانستان کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے معروف تجزیہ نگار رحیم اللہ یوسف زئی کے خیال میں امریکا کی شمولیت کے بغیر یہ خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’چین نے پہلے بھی لوگر میں سرمایہ کاری کی تھی، جو تین بلین ڈالر سے زیادہ تھی۔ لیکن تانبے کی کان کنی میں اس سرمایہ کاری کے نتائج کچھ زیادہ حوصلہ افزا نہیں نکلے، کیونکہ افغانستان میں بد امنی کی وجہ سے وہاں سرمایہ کاری کا معاملہ بہت ہی مشکل ہے۔ اس کے علاوہ چین فریاب اور شمال کے کچھ اور صوبوں میں بھی تیل اور گیس کے شعبوں میں سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے لیکن افغانستان میں بد امنی اس کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ یہ بدامنی اس وقت تک ختم نہیں ہو گی جب تک امریکا چین کے ساتھ تعاون نہیں کرے گا اور سردست ایسے تعاون کے امکانات نظر نہیں آتے کیونکہ ٹرمپ پہلے طالبان کو لڑائی کے ذریعے کمزرو کرنا چاہتے ہیں اور پھر کوئی بات چیت۔‘‘
رحیم اللہ یوسف زئی کے خیال میں چین پہلے مرحلے میں افغانستان اور پاکستان کو قریب لانا چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’کابل اور اسلام آباد کے درمیان بہت سی بدگمانیاں ہیں۔ ایسے ماحول میں مذاکرات کی بات کیسے ہو سکتی ہے؟ میرے خیال میں بیجنگ پہلے اسلام آباد اور کابل کو قریب لائے گا۔ ان کے درمیان اعتماد کی فضا پیدا کرنے کی کوشش کر ے گا۔ پھر کسی مرحلے پر امریکا کو بھی اس میں شامل کیا جائے گا۔ میرے خیال میں چار ملکی مذاکراتی عمل کو مزید فعال بنانا چاہیے اور اسی کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی جانا چاہیے۔ لیکن یہ سب کچھ بہت جلد نہیں ہو گا۔ اس میں بھی بہت سے مسائل پیش آئیں گے اور بہت سی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘‘