کیا بھارت قیدیوں کے ازدواجی حقوق کی اسکیم میں توسیع کرے گا؟
8 نومبر 2022بھارتی ریاست پنجاب میں ستمبر کے مہینے سے قیدیوں کو ازدواجی ملاقاتوں کی اجازت دی گئی۔ ریاستی حکومت کے اس اقدام کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اس طریقے سے جیل کی مدت کے دوران قیدیوں کی بحالی کے عمل اور ان کے خاندانی بندھن کو برقرار رکھا جا سکتا ہے۔
بھارت میں 461 پاکستانی اور پاکستان میں 682 بھارتی قید
بھارت میں پہلی مرتبہ شادی شدہ قیدیوں کی اپنے شریک حیات سے تنہائی میں ملاقات کی اسکیم پنجاب کی 26 میں سے 17 جیلوں میں متعارف کرائی گئی ہے۔ اس اسکیم کو موجودہ پیمانے پر متعارف کرائے جانے سے قبل تین جیلوں میں اس کی آزمائشی مشقیں کی گئیں۔
اس اسکیم کے آغاز پر پنجاب میں جیلوں کے ڈائریکٹر جنرل ہرپریت سنگھ سدھو نے کہا تھا، ''اس سے ازدواجی تعلقات میں بہتری آئے گی، قیدیوں پر دباؤ کم ہوگا اور امید ہے کہ ان کی اصلاح میں مدد ملے گی۔ ان دوروں کے لیے ترجیح اچھے رویے کے ساتھ شارٹ لسٹ کیے گئے قیدیوں کے لیے ہوگی۔‘‘
یہ دورے ہر دو ماہ بعد باتھ روم کی سہولت کے ساتھ اور بنیادی فرنیچر پر مشتمل ایک محفوظ کمرے میں دو گھنٹے کی ملاقاتوں تک محدود ہیں۔ گینگسٹرز، ہائی رسک قیدی اور جنسی جرائم میں ملوث قیدی اس اسکیم کا حصہ نہیں ہوں گے۔
کیا دوسری ریاستیں پنجاب کی پیروی کریں گی؟
بھارتی قانون میں فی الحال ایسا کوئی فریم ورک موجود نہیں، جو قیدیوں کو ازدواجی ملاقات کے حقوق کی اجازت دیتا ہو۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ اس صورتحال میں تبدیلی لائی جانی چاہیے۔ انسانی حقوق کی ایک تنظیم کامن ویلتھ ہیومن رائٹس انیشی ایٹو کے جیلوں میں اصلاحات کے پروگرام کی سربراہ مادھوریما دھانوکا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،''پنجاب کے محکمہ جیل نے کم خطرناک قیدیوں کو ان کی شریک حیات سے ملنے کا موقع فراہم کرکے ایک اہم قدم اٹھایا ہے۔‘‘
پاکستانی جیل میں 28 برس گزارنے کے بعد بھارتی شہری وطن واپس
انہوں نے مزید کہا، ''اس طرح کی سہولیات دینے کے بہت سے فوائد ہیں خاص طور پر ایسے میں جب جیلوں کو اصلاح اور بحالی کی جگہ سمجھا جاتا ہے۔‘‘ دنیا کے بہت سے ممالک میں شادی شدہ دوروں کی اجازت دی جاتی ہے تاکہ قیدیوں کو قوانین پر عمل کرنے اور اچھے رویے کو برقرار رکھنے کے لیے مراعات مل سکیں۔
دھنوکا نے کہا، ''جیسے جیسے معاشرہ ترقی کرتا ہے، ایک شخص کی فلاح و بہبود کے لیے مسلسل ازدواجی تعلقات کی اہمیت کا احساس اور سمجھ میں اضافہ ہوتا ہے۔‘‘ تاہم مجموعی طور پر ازدواجی دوروں کا معاملہ فی الحال ریاستی سطح کی عدالتوں کے ہاتھ میں ہے۔ مثال کے طور پر جنوبی ریاست تامل ناڈو میں مدراس ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ ازدواجی ملاقاتیں ''حق ہے نہ کہ استحقاق‘‘۔
بھارتی جیلوں کی اصلاح
بھارت کی جیلوں کی آبادی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔سن 2021 میں ملک بھر کی جیلوں میں ساڑھے پانچ لاکھ سے زیادہ قیدی ریکارڈ کیے گئے، جن کی تعداد 2018ء میں چار لاکھ ستر ہزار سے زائد تھی۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ان قیدیوں میں سے 77 فیصد سے زیادہ عدالتی مقدمہ چلائے جانے سے قبل حراست میں لیے گئے تھے۔
ماہر سیاسیات اور محقق نوشرن سنگھ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ مختلف درجوں کے مجرموں کے لیے قید کے متبادل پر غور کیا جانا چاہیے۔ اس میں ٹرائل کے انتظار میں رہنے والوں کو اپنی کمیونٹیز میں رہنے اور اپنے بچوں اور کنبہ کے ممبران کو مدد فراہم کرنے کی اجازت دینا شامل ہو۔ انہوں نے مزید کہا کہ خواتین قیدیوں کو بھی ازدواجی ملاقات کی اسکیموں میں شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ سنگھ نے کہا، ''اس وقت ایسا لگتا ہے کہ پالیسی صرف مرد قیدیوں کے لیے وضع کی گئی ہے۔‘‘
بھارتی تاریخ دان اور فلم ساز اوما چکرورتی ملک میں جیلوں کی حالت زار پر توجہ دلانے کے لیے کام کر چکی ہیں۔ ان کا کہنا ہےکہ ازدواجی دوروں کے حقوق سے قبل جیلوں کے حالات اور انتظام کو ''انسانیت لائق‘‘ بنانےکے لیے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔
چکرورتی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہندوستانی جیلوں میں دوسرے رشتوں پر شادی کا استحقاق کیوں؟ جیلوں میں قطعی طور پر کوئی انسانی رشتہ نہیں ہے۔ جیلوں کے حالات انتہائی ناگفتہ بہ ہیں اور پہلے انہیں بہتر کیا جانا چاہیے۔ جیلوں کو باوقار بنائیں اور پھر اسے اگلی سطح پر لے جائیں۔‘‘
ش ر ⁄ ک م (مرلی کرشنن)