’’باقی کچھ بچا تو مہنگائی مار گئی‘‘
یہ سن1974کی مشہور فلم روٹی،کپڑا اور مکان کی قوالی کا ایک مصرعہ ہے، جو اپنے دور میں کافی مقبول ہوا تھا۔ آج یہ مصرعہ میرے لبوں پر اکثر غیر ارادتاً آجاتا ہے۔ حالات ہی کچھ ایسے ہیں کہ امور خانہ داری چلانا جوئے شیر لانے کے مانند ہوگیا ہے۔ جب بھی میری سہیلیوں سے بات ہوتی ہے تو وہ مہنگائی کا رونا روئے بغیر نہیں رہتیں۔ ان کے زبانوں پر یہ کلمہ وارِد رہتا ہے کہ گھر کیسے چلائیں،سمجھ میں نہیں آتا! یہ کیسی بے مروت اور بے حس حکومت ہے کہ اسے عام آدمی کی تکلیفوں کا ذرا بھی احساس نہیں۔
ہم بچپن میں اپنے بزرگوں سے سنتے تھے کہ پہلے دو آنہ میں ایک کلو گیہوں آتا تھا۔ بارہ آنہ میں ایک کلو خوردنی تیل اور ایک روپے میں ایک کلو اصلی گھی، فقط ایک روپے میں دونوں جیب بھر کے کاجو وغیرہ وغیرہ۔ لیکن یہ باتیں آج افسانہ معلوم ہوتی ہیں۔
ایسا نہیں مہنگائی کوئی آج کا ایک نیا مسئلہ ہے۔ یہ مسئلہ ہمیشہ سے رہا ہے۔ پہلے زمانے کے لوگ بھی اس کی شکایات کی کیا کرتے تھے۔ لیکن جب کوئی چیز ناقابل برداشت ہوجائے تو ہر طرف سے ہاہا کار کی صد ائیں بلند ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔ آج بھارت میں عملاً یہی حالت ہے جہاں گرانی نے تمام پچھلے ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ آبادی کا ایک بڑا طبقہ مہنگائی کے بوجھ تلے کراہ رہا ہے۔
بھارت کی وفاقی وزارت خزانہ اور ریزرو بینک آف انڈیا کے تخمینے کے مطابق افرط زر اور اشیاء خور و نوش کی قیمتوں میں اضافہ کی شرح چھ فی صد زیادہ ہے، جو قابل برداشت شرح سے بہت زیادہ ہے۔ جبکہ خوردہ بازار میں یہ شرح اس سے بھی بہت زیادہ ہے۔ وزارت کے محکمہ برائے مالی امور کے داخلی جائزہ میں یہ بات کہی گئی کہ گزشتہ چھ مہینوں میں گرانی کی اونچی شرح کے لیے خارجی اور داخلی دونوں عوامل کارفرما ہیں اور یہ صورت حال آئندہ برقرار رہ سکتی ہے۔ مہنگی درآمدات اور خراب مقامی موسمی حالات نے بھارت کی وفاقی حکومت اور ریزرو بینک آف انڈیا دونوں کی فکر مندیوں میں اضافہ کردیا ہے۔ خارجی عوامل میں خام تیل اور خوردنی تیل کی مہنگی درآمدات جبکہ داخلی عوامل میں اشیائے خورد و نوش اور سبزی ترکاریوں کے اونچے دام وغیرہ فلک بوس مہنگائی کے ذمہ دار ہیں۔
ریزرو بینک آف انڈیا کے تخمینے کے مطابق مالی سال 2022/23 چوتھی سہ مائی میں گرانی کی شرح 7,5 فی صد رہنے کا امکان ہے۔ ماہ اگست کے اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ مہنگائی کا رقص تھمنے والا نہیں ہے اور اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافہ کی تشویش ناک شرح معاشرہ کے کمزور طبقات کے لیے پریشانی کا باعث بنی ہوئی ہے۔
متعدد بین الاقوامی اور ملکی اداروں نے افراط زر کے بارے میں جو اندازے لگائے ہیں اس نے حکومت کی پریشانیوں میں اضافہ کر دیا۔
امسال فروری میں روس اور یوکرین کے درمیان جنگ شروع ہونے کے بعد چیزوں کے داموں میں عالمی سطح پر اضافہ ہونا شروع ہوا۔ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ نے اپریل 2022 ء میں اپنے ورلڈ اِ کنامک آؤٹ لک یا عالمی اقتصادی منظر نامے میں افراط زر کی شرح کے بارے جو نظر ثانی شدہ تخمینے جاری کیے ہیں، ان کے مطابق ترقی یافتہ معیشتوں کے لیے 3.9 سے 5.9 فی صد اور ابھرتی ہوئی معیشتوں کے لیے 5.7 سے 8.7 فی صد تک رکھا ہے۔
یہ اب ایک تلخ حقیقت ہے کہ بھارت میں متعدد اشیاء غریب عوام کے قوت خرید میں نہیں رہی ہیں۔ گزشتہ آٹھ سالوں میں جب سے یہ حکومت بر سر اقتدار آئی ہے ہر چیز کے دام میں تیزی سے مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ آٹے کی دس کلو کی تھیلی جو پہلے ڈیڑھ سو اور دو سو روپے میں ملتی تھی۔ اب اس کے دام دو گنا سے زیادہ ہوگئے ہیں۔ چینی کا دام بھی تقریبا دو گنا ہوگیا ہے۔ پہلے ایک کلو چنیی بیس بائیس روپے کلو دستیاب تھی وہ اب پینتالس تا پچاس روپے ہے۔ خوردنی تیل ایک لیٹر پیسنٹھ روپے تھا وہ اب دوسو روپے ہوگیا ہے۔ دالیں اور اجناس خصوصاً چاول اور گندم کے دام بھی اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ جس کی ماضی میں نظیر نہیں ملتی۔
گھریلو استعمال کی گیس کا فی سلینڈر جو موجودہ حکومت کی پیشرو کانگریس کے زیر قیادت یو پی اے حکومت میں 410 روپے کا تھا وہ 1100 روپے ہوگیا ہے۔ اس حکومت نے غریب لوگوں کے لیے 'اجولا‘ کے نام سے پہلی مرتبہ مفت گیس اسٹو اور سلینڈر دینے کی اسکیم شروع کی تھی۔ لیکن سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس اسکیم کے 90 فی صد صارفین دوسرا سلینڈر خرید نہیں پائے ہیں اور یہ اسکیم فیل ہوگئی۔ اسی طرح پیٹرول اور ڈیزل کے نرخوں میں آئے دن اضافہ ہوتا رہتا ہے، جس کا لامحالہ براہ راست اثر دیگر چیزوں پڑتا ہے۔
یہ بھی عجیب ستم ظریفی ہے کہ نریندر مودی وزیراعظم بنے سے پہلے مہنگائی کے خلاف زور دار تقریریں اور بیانات دیا کرتے تھے۔ وہ خواتین کو چولھے پر کھانا پکاتے دیکھ کر کرب میں مبتلا ہوجایا کرتے تھے۔ ان کی کابینہ میں شامل ایک خاتون وزیر اور حکمراں جماعت کے دیگر ارکان یو پی اے حکومت میں گیس سلینڈر کے دام میں معمولی اضافہ پر خالی سلینڈر سروں پر اٹھائے سراپا احتجاج بنے رہتے تھے۔ اسی طرح میڈیا بالخصوص ٹی وی چینلوں پر دن رات مہنگائی کے حوالے سے ہنگامہ آرائی ہوا کرتی تھی۔ لیکن آج ان سب کو جیسے سانپ سونگھ گیا ہے۔ فلک شگاف مہنگائی کے خلاف کوئی چوں کی آواز بھی سنائی نہیں دیتی ہے، ان چینلوں کا سار ا وقت ہندو۔ مسلم تفریق پھیلانے میں صرف ہوتا ہے۔
مزید ستم ظریفی یہ ہے کہ وزیر اعظم مودی ہر ماہ 'من کی بات‘ کے عنوان سے عوام سے خطاب کرتے ہیں لیکن کبھی انہوں نے اس مسئلہ پر زبان کھول کر غریبوں کی اشک شوئی کرنے کی زحمت نہیں کی۔ میرے خیال سے کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے جو بھارت جوڑو یاتر ا پر نکلے ہیں، وزیراعظم نریندر مودی پر بالکل صحیح طنز کیا ہے۔ انہوں نے ایک ٹوئٹ میں اڈانی اور امبانی کا نام لیے بغیر لکھا، '’مہنگائی عام لوگوں کے سینوں پر رقصاں ہے۔ ایک بڑی آبادی کو دو وقت کا بھرپور کھانا بھی نصیب نہیں ہورہا ہے، راجا کو اپنے امیر دوستوں کے سامنے غریب عوام دکھائی نہیں دیتی۔‘‘
مہنگائی سے ناتا توڑو، بھارت جوڑو‘
صورت حال یہ ہے کہ اپریل 2021 سے بھارت کو تھوک یا ہول سیل نرخ کی سطح پر ڈبل ِڈِجیٹ اِنفلیشن کا سامنا ہے، یعنی اشیائے صرف کی قیمتوں میں دس سے نناوے فی صد کا اضافہ ہورہا ہے۔ اس کے اثرات سے تمام طرح کا محنت کش طبقہ چاہے وہ غیر ہنر مند مزدور ہو یا اعلی فسر ہو سب ہی متاثر ہوتے ہیں۔
ہمسایہ ملک سری لنکا کی طرح بھارت میں بھی فلک شگاف مہنگائی اور بیروزگاری کے خلاف اندر ہی اندر لاوا پک رہا ہے۔ تاہم ذات پات اور مذہبی خانوں میں منقسم معاشرہ کی وجہ سے وہ منظم شکل اختیار کر نہیں پا رہا ہے۔
اف! یہ مہنگائی یہ جینے تو دے نہیں رہی ہے ۔ اب مرنا بھی دشوار کر دیا ہے۔ اف!
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔