کیا ماں بچے کو عوامی مقام پر چھاتی سے دودھ پلائے؟
19 اکتوبر 2018آسٹریلوی رکن پارلیمان لاریسا واٹرز نے جب ایوان بالا میں اپنے نومولود بچے کو چھاتی سے دودھ پلایا، تو عالمی سطح پر ایک انتہائی شدید بحث شروع ہو گئی کہ آیا بچوں کو عوامی مقامات پر ماں کا دودھ دیا جا سکتا ہے؟
خاتون پولیس اہلکار کے دودھ نے بچے کی جان بچا لی
ماں کا دودھ اہم، سینکڑوں ماؤں نے ایک ساتھ بچوں کو دودھ پلایا
ڈی ڈبلیو کے پروگرام ’وٹ ہیپنڈ نیکسٹ؟‘ یا ’آگے کیا ہوا؟‘ میں اپنے انٹرویو میں واٹرز سے جب یہ پوچھا گیا کہ انہیں ایسا کیوں لگا کہ انہیں عوامی سطح پر اپنے بچے کو چھاتی سے دودھ پلانا چاہیے، تو ان کا کہنا تھا، ’’دیکھیے میں رکن پارلیمان بھی ہوں اور ایک ماں بھی۔ مجھے دونوں کام کرنا ہیں۔ شکر ہے کہ یہ 2018 ہے اور ہم بیک وقت یہ دونوں کام کر سکتے ہیں۔‘‘
واٹرز کا کہنا ہے کہ ان کا بچہ بہت چھوٹا ہے اور اسے مسلسل دودھ درکار ہوتا ہے۔ ’’بچے بھوکے ہوں تو انتظار نہیں کرتے۔ انہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ بالغوں کی دنیا کیسی ہے یا پارلیمان کسے کہتے ہیں۔ جب وہ بھوکے ہوتے ہیں، تو انہیں ہر حال میں خوراک درکار ہوتی ہے۔‘‘
گو کہ دنیا کے بہت سے مقامات پر عوامی سطح پر بچوں کو ماں کا دودھ دیا جا سکتا ہے، تاہم خواتین کا کہنا یہ رہا ہے کہ وہ عوامی مقامات پر اپنے بچوں کو دودھ پلانے میں جھجک محسوس کرتی ہیں۔‘‘
رواں برس ستمبر میں نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیکنڈا آردرن اپنی نومولود بیٹی کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں ساتھ لے گئیں۔ جنرل اسمبلی کے ہال میں بھی ماں بیٹی کو ایک ساتھ دیکھا گیا۔ آردرن کا کہنا تھا، ’’میں ایک ماں اور ایک رہنما کا کردار ملا رہی ہوں، کیوں کہ ایسا بالکل ممکن ہے۔ میری بیٹی تمام تقریبات میں میرے ساتھ ہوتی ہے۔‘‘
تاہم سرکاری اجلاس میں بچوں کو یوں لانا اب تک ایک متنازعہ یا کم از کم قابل بحث معاملہ ہے۔ ایک جاپانی سیاست دان یوکا اوگاتا نے گزشتہ برس برطانوی اخبار ٹیلی گراف سے بات چیت میں کہا تھا کہ انہیں ایک کونسل سیشن میں اپنا بچہ ساتھ لانے سے روکا گیا۔
دوسری جانب رواں برس اکتوبر میں فن لینڈ میں حکام نے مطالبہ کیا کہ ملک میں نیا قانون منظور کیا جانا چاہیے، جس کے تحت کسی عوامی مقام پر کسی ماں کے اپنے بچے کو دودھ پلانے کے حق کا تحفظ کیا جا سکے۔ یہ بات اہم ہے کہ عوامی مقامات پر خواتین کو اپنے بچوں کو دودھ پلانے کے حق کے لیے عالمی سطح پر ایک تحریک بھی پیدا ہوتی جا رہی ہے۔
اینڈی والور، ع ت، ص ح (روئٹرز، اے ایف پی، ڈی ڈبلیو)