1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات اب دوست نہیں رہے؟

29 جولائی 2023

کئی سالوں سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سیاسی اور اقتصادی طور پر ایک ساتھ مل کر کام کرتے دکھائی دیتے رہے۔ اب دونوں خلیجی ریاستوں نے ایک دوسرے کے ساتھ تیزی سے مقابلہ شروع کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4UVWi
Saudi-Arabien Riad | Mohammed bin Salman
تصویر: SPA/dpa/picture alliance

ایک طویل عرصے سے، دونوں خلیجی ریاستیں سیاسی طور پر بہت قریب تھیں، کئی شعبوں میں شانہ بشانہ کام کر رہی تھیں۔ متحدہ عرب امارات کو سعودی عرب کا ایک قسم کا جدید 'جونیئر پارٹنر‘ سمجھا جاتا تھا۔ تاہم سعودی عرب کے ولی عہد اور وزیر اعظم محمد بن سلمان (جنہیں ایم بی ایس بھی کہا جاتا ہے) نے اپنے ایک بیان میں اس دیرینہ دوست ملک کیساتھ اپنے حالیہ تعلقات کے بارے میں کہا،''انہوں نے ہماری پیٹھ میں خنجر گھونپا ہے۔‘‘

مشرق وسطیٰ کے خطے پر گہری نظر رکھنے والے مبصرین کی طرف سے ایک طویل عرصے سے یہ قیاس آرائیاں کی جاتی رہی ہیں کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارت  کے مابین نظر آنے والی ہم آہنگی کے پیچھے بڑی گہری دشمنی جڑیں پکڑ چُکی ہے۔ اب اس بارے میں ٹھوس بیانات اور اقتباسات گردش کر رہے ہیں۔ اس کی ایک مثال گزشتہ سال دسمبر میں ایم بی ایس کا وہ بیان ہے جو انہوں نے اپنے مقامی صحافیوں کے ساتھ ایک پس پردہ گفتگو میں دیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا،'' آپ جلد دیکھیں گے کہ میں کیا کچھ کرنے کی پوزیشن میں ہوں۔‘‘ سعودی عرب کے ولی عہد کے اس بیان پر مبنی امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل میں حال ہی میں شائع ہونے والی رپورٹ سے پورے خطے میں سوشل نیٹ ورکس پر بہت ہنگامہ آرائی ہوئی۔

ذاتی حساسیت

مذکورہ بالا توقعات میں سے کسی کی بھی دونوں طرف سرکاری طور پر تصدیق نہیں کی گئی ہے لیکن ماہرین یہ بھی ماننا ہے کہ ہم آہنگی کی سطح کے پیچھے، حالیہ برسوں میں دونوں ممالک یا ان کے انتظامی عملے کے مابین دشمنی میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ جرمن مڈل ایسٹ میگزین ''زینتھ‘‘ کے چیف ایڈیٹر اور اس خطے  میں ایک طویل عرصے سے کام کرنے والے ماہر ڈینیئل گیرلاخ کا کہنا ہے کہ سیاسی اور معاشی مسابقت یا اختلاف کے علاوہ ذاتی حساسیت نے بھی ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔

سعودی عرب کے ولی عہد کد ترک صدر سے ملاقات
سعودی عرب کے ولی عہد اور وزیر اعظم محمد بن سلمان اپنی خارجہ اور علاقائی پالیسیوں کا دائرہ وسیع کرتے جا رہے ہیںتصویر: Saudi Press Agency/REUTERS

ڈینیئل گیرلاخ نے حال ہی میں ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت میں اپنے مشاہدے کی بنا پر عندیہ دیا تھا کہ  سعودی عرب کے حقیقی حکمران ایم بی ایس اور متحدہ عرب امارات کے سربراہ شیخ محمد بن زید النہیان جنہیں MbZ بھی کہا جاتا ہے، کے درمیان قریبی ذاتی تعلقات تھے۔ ایم بی زیڈ یہاں تک کہ ایم بی زیڈ سعودی ولی عہد کے سیاسی سرپرست بھی تھے۔

یمن تقسیم کی بنیاد بنا

سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے درمیان اختلافات کی ایک بڑی وجہ یمن کی جنگ بھی بنی۔ سعودی بادشاہت نے سن 2015 میں اس وقت کی یمنی حکومت کی طرف سے ایک فوجی اتحاد کی سربراہی میں مداخلت کرتے ہوئے حوثی باغیوں سے لڑائی کی  تو متحدہ عرب امارات بھی اس اتحاد میں شامل ہوا۔ سعودی عرب کی طرح متحدہ عرب امارات بھی حوثیوں کو اس وقت اپنے دیرینہ  دشمن ایران کی توسیع کے طور پر دیکھ رہا تھا۔

شروع شروع میں متحدہ عرب امارات جنگ میں بہت زیادہ ملوث تھا اور اسے کافی زیادہ نقصان بھی پہنچا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ انہوں نے  اس پوری حکمت عملی کے مقصد پر سوالیہ نشان بھی اُٹھایا۔ اس وقت کے صدر عبد ربو منصور ہادی کی حکومت پر ملک کو دوبارہ متحد کرنے اور استحکام پران کا بھروسہ کم ہی تھا۔ یہاں بھی دونوں ساتھی ممالک الگ الگ ہوگئے۔

انٹرنیشنل کرائسز گروپ کے تجزیے کے مطابق متحدہ عرب امارات ان مذاکرات میں شامل نہیں تھا جو سعودیوں نے بعد میں حوثی باغیوں کے ساتھ کیے تھے۔ متحدہ عرب امارات کو سعودی عرب اور ایران کے درمیان 2023 ء میں طے پانے والے معاہدے میں بھی شامل نہیں کیا گیا تھا، جس کی باضابطہ طور پر ثالثی بنیادی طور پر چین نے کی تھی۔ مشرق وسطیٰ امور کے ماہر گرلاخ کا مزید کہنا ہے ،''ان سب کے نتیجے میں سعودیوں میں یہ تاثر بڑھتا چلا گیا کہ متحدہ عرب امارات کا تعلق حوثیوں کو شکست دینے یا انہیں کسی سمجھوتے پر مجبور کرنے سے نہیں بلکہ بنیادی طور پر اپنے مقاصد کو پورا کرنے سے ہے۔‘‘

 شیخ محمد بن زید النہیان
شیخ محمد بن زید النہیان ہی دراصل متحدہ عرب امارات کی روح رواں مانے جاتے ہیںتصویر: picture-alliance/NurPhoto/A. Widak

اقتصادی مقابلہ بازی

کچھ عرصے سے، دونوں ریاستیں معاشی طور پر بھی تیزی سے مسابقت کر رہی ہیں۔ سعودی عرب میں سرمایہ کاری کرنے والی مغربی اور بین الاقوامی کمپنیاں طویل عرصے سے اپنا صدر دفتر دبئی میں رکھنے کو ترجیح دیتی ہیں۔ یہ شہر سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض سے زیادہ کھلا اور کاسموپولیٹن سمجھا جاتا ہے۔ لیکن سعودی عرب اب بظاہر جدیدیت کی طرف گامزن ہے اور اگر ضرورت پڑے تو دباؤ کے ساتھ بین الاقوامی کمپنیوں کو اپنی طرف لانے کی کوشش بھی کرنا چاہتا ہے۔  سعودی عرب  نے حکم دیا ہے کہ جو کمپنیاں اس مملکت کی شراکت داری سے کام کر رہی ہیں  ان کا 2024 ء کے بعد سے علاقائی ہیڈکوارٹر بھی 2024 ء کے بعد سے وہاں ہی ہونا چاہیے۔ اس کا اثر لامحالہ دبئی پر پڑے گا۔

اس کے علاوہ سعودی عرب کے ولی عہد  ایم بی ایس جدید ٹیکنالوجی کے متعدد مراکز قائم کر کے  ملک میں زیادہ سے زیادہ سیاحوں کو راغب کر کے اور لاجسٹک مراکز تیار کر کے متحدہ عرب امارات  کو چیلنج کرنا چاہتے ہیں، جو اب تک اس خطے کا سب سے اہم تجارتی مرکز ہے۔

 اس سال مارچ میں محمد بن سلمان  نے اعلان کیا کہ وہ ایک  دیگر قومی ایئر لائن کے قیام کا ارادہ رکھتے ہیں جس کا مقابلہ متحدہ عرب امارات کی معروف فضائی کمپنیوں جیسا کہ ''ایمریٹس‘‘ اور ''اتحاد ایئرویز‘‘ سے ہونا چاہیے۔ سعودی عرب  اور متحدہ عرب امارات کے مابین مسابقت جلد ہی ان تمام اور دیگر شعبوں میں نمایاں نظر آنے لگے گی۔

ک م/ ا ا (کرسٹن کنپ)