کیا شام میں آخری معرکہ ہونے جا رہا ہے؟ ڈی ڈبلیو کا تبصرہ
9 فروری 2016ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار الیکسزانڈر کوڈا شیف کے مطابق لگتا یوں ہے کہ شام میں آخری معرکہ جاری ہے۔ روس کی مدد اور اس کی فضائی بمباری کی وجہ سے بشار الاسد کو دوبارہ بالا دستی حاصل ہو رہی ہے اور شاید اس وجہ سے بھی کہ زمین پر شامی فوج کو بڑے پیمانے پر روسی انتظامی اور تکنیکی مدد حاصل ہے۔ اگر اسد کے فوجی اس شہر پر دوبارہ مکمل کنٹرول حاصل کر لیتے ہیں تو یہ دمشق حکومت کے لیے ایک معرکہ جیتنے سے بھی کہیں زیادہ ہوگا۔ یہ جیت جلتے ہوئے اور زوال کے شکار شام میں ایک اہم اور فیصلہ کُن امر ثابت ہو گی لیکن اس کے بعد شامی شہریوں کے پاس صرف فرار، موافقت یا پھر موت کا راستہ بچے گا۔
دوسری جانب شام آرٹ کی ایک ایسی جغرافیائی تصویر بن کر رہ گیا ہے، جو مختلف علاقوں، جگہوں، دیہات اور شہروں پر مشتمل ہے، ان میں سے کسی پر اسد حکومت، کسی پر مختلف اپوزیشن گروہوں، کسی پر النصرہ فرنٹ کے قاتلانہ گروپوں اور کسی پر نام نہاد ’دولت اسلامیہ‘ کا قبضہ ہے۔ اس خونریز خانہ جنگی میں شامی شہریوں کا کردار صرف اور صرف ایک ہے، انہیں بس ہلاک کیا جا رہا ہے، ان کی زندگی کی کوئی بھی قدر و قیمت نہیں ہے۔
روس: اسد کی جانب
بشار الاسد کی واپسی روس کی وجہ سے ہوئی ہے۔ روس نے طاقت کے انخلاء کا فائدہ اٹھایا ہے۔ روسی صدر پوٹن انتہائی مضبوطی کے ساتھ اس کھیل میں داخل ہوئے ہیں۔ ان کا صرف ایک مقصد ہے، اسد کو ہر حال میں طاقت میں رہنا چاہیے۔ اس کے لیے کریملن حکومت سب کچھ کر رہی ہے۔ لہذا بغیر کسی ہچکچاہٹ کے سخت فوجی عزم کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
روس کا دوسرا مقصد مطلق العنانی کے ذریعے علاقے میں استحکام پیدا کرنا ہے۔ اب کوئی بھی عرب بہار کا ذکر کرنا پسند نہیں کرتا اور نہ ہی عرب جمہوریت کے خوبصورت خیال کی بات کی جاتی ہے۔ یہ خواب ایک ڈراؤنے وہم میں تبدیل ہو چکا ہے۔ لیکن کیا متحد شام مستقبل میں استحکام کے لیے ایک عنصر ثابت ہو سکتا ہے ؟ اس کا جواب فی الحال کسی کے بھی پاس نہیں ہے۔
سارا مغرب خاص طور پر امریکا اور باراک اوباما خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ یہ اچھی طرح آگاہ ہیں کہ فوجی آپریشن سے کچھ حاصل نہیں ہوگا اور اس میں چھپے خطرات فریقین میں مزید شدت پیدا کریں گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ مغربی فوجیوں کو کس کی جانب سے لڑنا چاہیے؟
مغرب کی لاچاری
یہی وجہ ہے کہ سیاستدان جنیوا میں امن مذاکرات چاہتے ہیں اس کے باوجود کہ یہ فروری کے بعد بھی جاری رہیں گے۔ مغرب اس مسئلے کا حل مذاکرات کی میز پر چاہتا ہے لیکن اس دوران شام کے زمینی حقائق بدلتے جا رہے ہیں۔ سب سے اہم اور فیصلہ کن سوال یہ ہے کہ امن مذاکرات کے بعد شام پر حکمرانی کون کرے گا؟ کیا حکمرانی اپوزیشن گروپوں کی ہو گی، جن کی حمایت نہ ہونے کے برابر ہے۔ کیا روسی بندوقوں کی حفاظت میں رہنے والے اسد برسر اقتدار رہیں گے؟ یا پھر جہادی گروپوں کی حکمرانی ہو گی؟ اور کیا سن دو ہزار گیارہ سے پہلے والا شام دوبارہ کھڑا کیا جا سکتا ہے؟ اصل میں مغرب کی اس لاچاری نے طاقت کا انخلاء پیدا کر دیا ہے، جسے دہشت گرد تنظیمیں، پوٹن اور اسد پُر کر سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ شام میں پراکسی جنگ کے دو اہم کردار باقی بچتے ہیں، ایک ایران اور دوسرا سعودی عرب۔ سعودی عرب وقت کی ضرورت کو سمجھ رہا ہے اور وہ یہ بھی کہ ہچکچاہٹ اور خوف میں رہتے ہوئے کچھ تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ امریکا اب سعودی عرب کی مکمل حمایت کی بجائے صرف جزوی حمایت کرنے لگا ہے۔ لہذا سعودی عرب کو اپنی طاقت پر انحصار کرنا پڑے گا اور یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب نے داعش کے خلاف اپنے زمینی فوجیوں کی پیشکش کی ہے۔ سعودی عرب کا یہ فیصلہ ایک انقلابی تبدیلی ہے اور اس تبدیلی کی وجہ بادشاہت کے خاتمے کا ڈر ہے۔
طاقت کے اس ہلاکت خیز کھیل کا اصل فاتح ایران ہے۔ کیونکہ ایران شامی جنگ کے دوران یا اس کے خاتمے کے بعد مشرق وسطیٰ کی غالب علاقائی طاقت بن جائے گا۔ خطے کی مجموعی صورتحال سے اسرائیل بھی خوفزدہ ہے۔ شام کا آخری معرکہ شروع ہو چکا ہے۔
آپ اس تبصرے سے متعلق نیچے اپنی رائے کا اظہار بھی کر سکتے ہیں۔ ہمیں آپ کی رائے جان کر خوشی ہو گی۔