کیا شامی تنازعہ سفارتی انداز میں حل ہو سکتا ہے؟ ڈی ڈبلیو کا تبصرہ
13 ستمبر 2013اس میں کوئی شک نہیں کہ روس کی جانب سے اچانک سامنے آنے والی تجویز نے ہی اسد حکومت کو کیمیائی ہتھیاروں کی تفصیلات مہیا کرنے اور انہیں بین الاقوامی معائنہ کاروں کے سپرد کرنے پر راضی کیا ہے۔ ڈی ڈبلیوکے تبصرہ نگار لوئے مدہون کہتے ہیں کہ اس پیش رفت کے بعد شامی تنازعے نے ایک نیا رخ اختیار کر لیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ شامی آمر نے اپنی سرپرستی کرنے والے ملک کی تجویز شکریے کے ساتھ تسلیم کرتے ہوئے امریکی عسکری کارروائی کے خطرے کو فی الحال ٹال دیا ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ اس طرح چاروں اطراف سے خطروں میں گھری اسد حکومت وقت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ دوسری جانب امریکی صدر باراک اوباما بھی اس پیش رفت پر کچھ مطمئن دکھائی دے رہے ہیں۔
ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار کے بقول ایک لحاظ سے امریکا کو افغانستان اور عراق کی جنگوں میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے اور اسی وجہ سے اوباما شام میں فوجی مداخلت کے حوالے سے بھی شکوک و شبہات رکھتے تھے۔ اوباما یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ امریکیوں کی اکثریت جنگوں سے تنگ آ چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ابتدا ہی سے شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال پر وہ عالمی برادری کی جانب سے متفقہ ردعمل کی وکالت کر رہے تھے۔ اس کے علاوہ کانگریس سے شام کے خلاف فوجی کارروائی کی اجازت ملنے کا معاملہ بھی غیر یقینی تھا۔
شامی کیمیائی ہتھیاروں کی سپردگی کے منصوبے پر عمل درآمد کے حوالے سے روس امریکا کو مکمل تفصیلات دے گا۔ اس کے علاوہ روس کو سلامتی کونسل کو بھی یہ یقین دلانا ہو گا کہ اگر اسد حکومت اس تجویز پرعمل نہیں کرتی تو وہ اقوام متحدہ میں شام کے خلاف فوجی کارروائی کے حق میں پیش کی جانے والی قرارداد کی مخالفت بھی نہیں کرے گا۔
ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار لوئے مدہون کہتے ہیں کہ شام کے اس پیچیدہ تنازعے کو حل کرنے کی یہ سفارتی کوشش بہت آسانی سے ناکام بھی ہو سکتی ہے۔ ان کے بقول جنیوا میں امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور ان کے روسی ہم منصب سرگئی لاوروف کے مابین اس تناظر میں ہونے والے مذاکرات سے کسی بڑی پیش رفت کی توقع بھی نہیں کرنی چاہیے۔
روسی صدر ولادی میر پوٹن بھی کہہ چکے ہیں کہ جب تک یہ ثابت نہیں ہو جاتا کہ دمشق کے نواح میں ہونے والے کیمیائی حملے میں اسد حکومت کا ہاتھ ہے تب تک شام کے خلاف عسکری کارروائی کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ لوئے مدہون کے بقول گزشتہ دو برسوں کے تجربے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عسکری کارروائی کی سنجیدہ دھمکیوں کے بغیر شامی صدر کو اپنا موقف تبدیل کرنے پر مجبور کرنا ممکن نہیں تھا۔