1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا ’مودی کا جادو‘ ختم ہو رہا ہے؟

جاوید اختر، نئی دہلی
12 دسمبر 2018

بھار ت کی پانچ ریاستوں میں ہوئے اسمبلی انتخابات میں زبردست شکست کے بعد یہ سوال شدت سے پوچھا جا رہا ہے کہ آیا حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کا زوال شروع ہوچکا ہے اور وزیر اعظم نریندر ’مودی کا جادو‘ ختم ہو رہا ہے؟

https://p.dw.com/p/39wfr
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودیتصویر: AFP/Getty Images/Puni Paranjpe

اسی کے ساتھ حکمران جماعت بی جے پی میں ایسی چہ مگوئیاں بھی شروع ہوگئی ہیں کہ آیا اس شکست کی اصولی ذمہ داری وزیر اعظم نریندر مود ی اور پارٹی کے قومی صدر امیت شاہ کو لینا چاہیے کیوں کہ 2014 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے اب تک ہوئے تمام ریاستی انتخابات میں پارٹی کی کامیابی کا سہرا بھی انہی دونوں رہنماؤں کے سرباندھا جاتا رہا ہے۔
کل 11دسمبر کو پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے نتائج آنے کے بعد ہندی خطے کی تین انتہائی اہم ریاستوں مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں کانگریس اپنی حکومت بنانے جا رہی ہے۔ 2014 کے عام انتخابات میں بی جے پی کو حاصل ہونے والی مجموعی طورپر 282 سیٹوں میں سے 62 اسے انہی تین ریاستوں سے ملی تھیں۔

Amit Shah
بی جے پی کے صدر امیت شاہتصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Kumar

بھارتیہ جنتا پارٹی نے راجستھان کی تمام 25 سیٹیں، چھتیس گڑھ کی گیارہ میں سے دس اور مدھیہ پردیش کی 29 میں سے 27 سیٹیں جیتی تھیں۔ لیکن اس مرتبہ ان تینوں ریاستوں میں بی جے پی کو جس طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے، اس سے آئندہ سال ہونے والے عام انتخابات میں اس کی دوبارہ کامیابی کے امکانات پر بڑے سوالیہ نشان لگ گئے ہیں۔
بھارت میں چند ماہ بعد عام انتخابات ہونے والے ہیں اور ان اسمبلی انتخابات کو وزیر اعظم نریندر مودی کے لیے ’لٹمس ٹیسٹ‘ کے طور پر دیکھا جا رہا تھا، جس میں وہ کامیاب نہیں ہو سکے اور اس پیش رفت کو ’مودی برانڈ‘ کے لیے زبردست دھچکا قرار دیا جا رہا ہے۔ بی جے پی کے سامنے چیلنج یہ بھی ہے کہ وہ ’مودی برانڈ‘ کی چمک دمک کو کس طرح برقرار رکھے۔
سابق وزیر خزانہ اور بی جے پی کے سینئر لیڈر یشونت سنہا نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’مودی کا جادو یقینی طور پر ختم ہو چکا ہے۔ وہ بھی کسی دوسرے عام لیڈر کی طرح ہیں۔ ان انتخابات کے نتائج نے یہ پیغام دیا ہے کہ مودی ناقابل تسخیر نہیں رہے۔ عوام کو اب یہ حقیقت سمجھ میں آ چکی ہے کہ مودی بھگوان نہیں ہیں اور انہیں بھی شکست دی جا سکتی ہے۔ عوام اب کسی خوف کے بغیر آگے بڑھیں گے۔‘‘

وزیر اعظم مودی کی اقتصادی پالیسیوں کے نکتہ چیں یشونت سنہا کا تاہم کہنا تھا، ’’بی جے پی میں کسی کے اندر اتنی جرأت نہیں کہ وہ شکست کے لیے مودی کو کھل کر ذمہ دار ٹھہرائے اور امیت شاہ کے استعفے کا مطالبہ کرے۔ پارٹی اس شکست پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرے گی۔‘‘

اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی جے پی کے کئی رہنماؤں نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح وزیر اعظم نریندر مودی اور پارٹی صدر امیت شاہ تمام کامیابیوں کا سہرا اپنے سر لیتے رہے ہیں، اسی طرح اس شکست کی ذمے داری بھی انہیں قبول کرنا چاہیے۔ ان رہنماؤں کا کہنا تھا کہ اگر بی جے پی یہ سمجھتی ہے کہ مودی کی مقبولیت برقرار ہے، تو یہ بہت بڑی بھول ہو گی۔
بہرحال بی جے پی کے رہنما عوامی طور پر یہی دعوے کر رہے ہیں کہ ان اسمبلی انتخابات کے نتائج سے پارٹی کی آئندہ کامیابی کے امکانات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ وزیر خزانہ اور بی جے پی کے سینئر رہنما ارون جیٹلی نے پارلیمنٹ کے احاطے میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’ان انتخابات کا آئندہ عام انتخابات کے نتائج پر کوئی اثر نہیں پڑے گا کیوں کہ وہ وفاقی حکومت کی کارکردگی کی بنیاد پر لڑے جائیں گے جبکہ ریاستی انتخابات میں مسائل یکسر مختلف ہوتے ہیں۔‘‘

ارون جیٹلی کا مزید کہنا تھا، ’’2019 میں مجوزہ عام انتخابات میں رائے دہندگان اس بنیاد پر فیصلہ کریں گے کہ وہ ایک آزمودہ لیڈر پر یقین کرتے ہیں یا غیر مستحکم حکومت دینے والے اور غیر نظریاتی بنیادوں پر قائم اتحاد کو اقتدار سونپنا چاہتے ہیں۔‘‘ جیٹلی نے تاہم اعتراف کیا کہ اسمبلی انتخابات کے نتائج بلا شبہ غیر متوقع تھے اور ’’ہمیں رک کر اپنا احتساب کرنا ہوگا۔‘‘

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسمبلی انتخابات کے نتائج حکمران بی جے پی سے زیادہ مودی اور امیت شاہ کی جوڑی کے لیے تشویش کا موجب ہیں کیوں کہ ان دونوں رہنماؤں نے الیکشن کے دوران جتنا زور لگایا تھا اور جس طرح تمام حربے آزمائے تھے، اس انتخابی شکست کے بعد ان کی گرفت اتنی مضبوط نہیں رہے گی اور اگر پارٹی کا ناراض دھڑا سرگرم ہو گیا، تو ان دونوں رہنماؤں کی پریشانی مزید بڑھ جائے گی۔
اس حوالے سے جی بی پنت انسٹیٹیوٹ آف سوشل سائنسز کے پروفیسر بدری نارائن نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو بات کرتے ہوئے کہا، ’’ان نتائج نے مودی کی برتری کے لیے سنگین چیلنج پیدا کر دیا ہے۔ اب ان کی زبان بدل جائے گی، لہجہ نرم ہو جائے گا اور وہ جارحانہ تقریروں کے بجائے موضوعات پر اپنی توجہ زیادہ مرکوز کریں گے۔‘‘ پروفیسر نارائن کا کہنا تھا، ’’وزیر اعظم مودی کو اپنی سیاست پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے اور خامیوں کو دور کرنا چاہیے کیوں کہ یہی وقت کی آواز ہے۔‘‘