کیا مہاجرین سے متعلق میرکل کا موقف ’تبدیل‘ ہو گیا؟
4 جولائی 2018گزشتہ شب چانسلر میرکل اور وزیرداخلہ ہوسٹ زیہوفر کے درمیان بات چیت میں طے پایا تھا کہ تارکین وطن کے حوالے سے ملکی سرحدوں پر سختی لائی جائے گی اور وہاں ’ٹرانزٹ مراکز‘ قائم کیے جائیں گے۔ اس طرح تارکین وطن کو آسٹریا کی سرحد پر ہی روک دیا جائے گا۔ اس سے قبل ہورسٹ زیہوفر نے دھمکی دی تھی کہ اگر تارکین وطن سے متعلق پالیسی سخت نہ بنائی گئی تو وہ حکومتی اتحاد سے نکل جائیں گے۔
'ٹرانزٹ مراکز‘ بنے تو حکومتی اتحاد چھوڑ دیں گے، ایس پی ڈی
میرکل، زیہوفر معاہدے کو دیگر یورپی رہنما کیسے دیکھتے ہیں؟
ہورسٹ زیہوفر کا تعلق چانسلر انگیلا میرکل کی جماعت کرسچین ڈیموکریٹک یونین کی باویریا صوبے میں سسٹر پارٹی کرسچین سوشل یونین سے ہے۔ ہوسٹ زیہوفر تارکین وطن سے متعلق سخت موقف رکھتے ہیں، تاہم چانسلر میرکل زور دیتی آئی ہیں کہ اس معاملے میں جرمنی کو انفرادی سطح پر اقدامات کی بجائے ایک مشترکہ یورپی حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
چانسلر میرکل کی جانب سے ماضی میں مہاجرین دوست پالیسی میں ایک طرح سے اس تبدیلی پر جرمنی کے ہم سایہ ممالک کی جانب سے شدید برہمی کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس نئے موقف پر جرمنی کی دوسری سب سے بڑی جماعت اور حکومتی اتحاد میں شامل ایس پی ڈی (سوشل ڈیموکریٹک پارٹی) نے بھی ناراضی کا اظہار کیا ہے۔
جرمنی میں اس نئی پیش رفت کے تناظر میں آسٹریا نے اٹلی کے ساتھ اپنی سرحد پر کنٹرول سخت کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ویانا حکومت کے مطابق، ’’برلن کا یہ اقدام نادرست ہے اور یہ اس مسئلے کا حل نہیں ہے۔‘‘
ویانا حکومت نے خبردار کیا ہے کہ اس سے گزشتہ ہفتے یورپی سطح پر ہونے والے اس معاہدے کو زِک پہنچے گی، جس کے تحت یورپی یونین میں داخل ہونے والے نئے تارکین وطن سے متعلق ایک مشترکہ لائحہ عمل پر اتفاق کیا گیا تھا۔
آسٹریا کے چانسلر سباستیان کُرس نے اس تناظر میں کہا، ’’ظاہر ہے ان کی حکومت ایسی کسی ڈیل کے لیے تیار نہیں، جس سے آسٹریا کو نقصان پہنچے۔‘‘
انہوں نے میرکل کی مہاجرین دوست پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا، ’’آسٹریا کو نہیں چاہیے تھا کہ وہ یورپ میں چند افراد کی تارکین وطن کو خوش آمدید کہنے کی پالیسیوں کا حصہ بنتا۔‘‘
آسٹریا کی دائیں بازو کی حکومت نے ملک کی جنوب میں اٹلی اور سلووینیا کی سرحدوں پر جانچ پڑتال کے عمل میں سختی کا اعلان بھی کیا ہے۔
ویانا حکومت کے اس اعلان کے بعد اب یورپ میں ’ڈومینو ایفیکٹ‘ کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے، یعنی یورپی یونین کی دیگر رکن ریاستیں بھی اپنے اپنے طور پر ملکی سرحدوں پر کنٹرول میں سختی کر سکتی ہیں اور ممکنہ طور پر تارکین وطن کے لیے یہ سرحدیں بند بھی کی جا سکتی ہیں۔
چیک جمہوریہ کے وزیراعظم آندریج بابیس نے واضح الفاظ میں یورپی یونین کے اس منصوبے کو رد کر دیا ہے، جس کے تحت مہاجرین کے بحران سے سب سے زیادہ متاثرہ یورپی ممالک سے مہاجرین کو ایک کوٹے کے تحت دیگر یورپی ریاستوں میں منتقل کیا جانا ہے۔ بابیس نے زور دیا ہے کہ اس طرح تارکین وطن کے لیے سرحدوں کی بندش کا ایک موقع پیدا ہو گیا ہے، جس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔
ع ت / ص ح / اے ایف پی