کیا مہاجرین کا بحران جرمنی کا سیاسی منظرنامہ بدل ڈالے گا؟
4 جنوری 2016گزشتہ ایک دہائی میں جرمن سیاست کئی اعتبار سے ٹھہراؤ کا شکار رہی ہے، جہاں میرکل اور ان کی جماعت قومی سطح پر واضح طور پر نمایاں رہے اور اہم امور پر بڑی جماعتوں کے درمیان ہم آہنگی دیکھی گئی۔ معاملہ یوروزون میں شامل مالیاتی بحران کے شکار ممالک کو دیے جانے والے بیل آؤٹ پیکیجز کا ہو یا ملک سے جوہری توانائی کے ری ایکٹرز کے خاتمے کا، ہر اہم مسئلے پر بڑی جماعتوں کے درمیان اصولی طور پر اتفاق ہی دیکھنے میں آیا ہے۔
سن 2016ء میں جرمنی میں سولہ میں سے پانچ ریاستوں میں ہونے والے علاقائی انتخابات میں اس بات کی جانچ ہو سکے گی کہ آیا مہاجرین کے حوالے سے حکومتی پالیسیوں کو عوامی تائید حاصل ہے۔ جرمنی میں اگلے برس پارلیمانی انتخابات بھی ہونا ہیں اور اس لیے بھی ان ریاستی انتخابات کو انتہائی اہمیت کا حامل قرار دیا جا رہا ہے۔
مہاجرین کے لیے دروازے کھولنے کی پالیسی پر ایک طرف تو چانسلر میرکل ملک کے اندر اور باہر تعریفی کلمات سمیٹ رہی ہیں، تاہم جرمن عوام کی ایک بڑی تعداد ان کی اس پالیسی کی مخالف بھی ہے۔ اندازے لگائے جا رہے ہیں کجہ یہ پہلا موقع ہے چانسلر میرکل سیاسی طور پر خاصی کمزور دکھائی دیتی ہیں۔ مشرقِ وسطی کے لاکھوں مہاجرین کو قبول کرنے پر جرمنی میں مہاجرین مخالف جماعت AfD کی مقبولیت میں خاصا اضافہ دیکھا گیا ہے، یہ جماعت پہلے جرمن سیاسی منظر نامے پر کوئی بڑا مقام نہیں رکھتی تھی۔
اس سے قبل جرمنی میں سیاسی طور پر تمام چیزیں خاصی واضح رہی ہیں اور بڑی آسانی سے کسی معاملے پر عوامی رائے کے حوالے سے پیشن گوئی کی جاتی رہی ہے، تاہم مہاجرین کے بحران کے حوالے سے عوام پہلی مرتبہ ایک واضح تقسیم کا سامنا کر رہے ہیں۔
جرمنی میں سب سے زیادہ بے چینی اِس ملک کی سرزمین پر اسلام پسندوں کے کسی ممکنہ حملے کے خطرات کے حوالے سے پائی جاتی ہے۔ نئے سال کے آغاز سے چند گھنٹے قبل حکام کو یہ اشارے ملے کہ عراقی اور شامی شہریت کے حامل افراد جنوبی شہر میونخ کے ٹرین اسٹیشنوں پر خودکش بم حملوں کی منصوبہ بندی میں مصروف ہیں، جس کے بعد پولیس اور سکیورٹی فورسز کی ایک بھاری نفری تعینات کی گئی اور میونخ کے دو مصروف ٹرین اسٹیشن بند کرنا پڑے۔
مبصرین کے مطابق اگر دہشت گرد ایسی کسی کارروائی میں کامیاب ہو جاتے، تو شاید میرکل کی سیاسی زندگی کے لیے یہ تباہ کن دھچکا ہوتا۔ خبر رساں ادارے روئٹرز نے اعلیٰ جرمن حکام کے حوالے سے کہا ہے کہ اگر مہاجرین کے سیلاب کا حصہ بن کر یورپ پہنچنے والے عسکریت پسند اس حملے میں شامل ہوتے، تو شاید جرمن سیاست میں میرکل کا باب ختم ہو جاتا۔ 13 نومبر کو پیرس میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں میں بھی دو دہشت گرد ایسے تھے، جو مہاجرین کے ساتھ شامل ہو کر یورپ پہنچے تھے۔
روئٹرز کے مطابق گو کر جرمنی ایسے کسی حملے سے محفوظ رہا، تاہم مہاجرین کا بحران بدستور جرمن سیاست میں نمایاں ترین موضوع ہے اور رواں برس بھی اس بابت بحث جاری رہے گی، جب کہ اس سلسلے میں ووٹرز دو واضح حصوں میں تقسیم رہیں گے۔
اس وقت میرکل کی جماعت سی ڈی یو کی باویریا صوبے میں سسٹر جماعت سی ایس یو اس موضوع پر حکومت کی سب سے بڑی ناقد دکھائی دیتی ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر مہاجرین کے حوالے سے پالیسی میں کوئی بڑی تبدیلی نہ آئی، تو جرمن سیاست کسی بڑے بحران کا شکار ہو سکتی ہے۔