کیا والدین پیرس حملوں سے متعلق اپنے بچوں سے بات کریں؟
16 نومبر 2015بچوں کی نفسیات کے زیادہ تر ماہرین کا خیال ہے کہ بچوں کو بتا دینا چاہیے تاہم وہ اس بات سے بھی متنبہ کرتے ہیں کہ والدین کو اس بات کی بھی احتیاط کرنی چاہیے کہ بچے اس واقعے کے حوالے سے خوف اور دہشت کا شکار نہ ہو جائیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان کے اپنے جذبات متاثر نہ ہوں یا وہ غم کا شکار نہ ہو جائیں۔
فرانس میں بچوں کے معروف ہسپتال Necker میں بچوں کی نفسیات کے شعبے کے سربراہ بیرنار گولزے کہتے ہیں کہ اس بات کا تین برس تک کے چھوٹے بچوں سے بھی ذکر کیا جا سکتا ہے: ’’وہ بڑوں میں موجود پریشانی اور دکھ کو محسوس کر سکتے ہیں۔ کچھ بھی نہ کہنا ان کے لیے زیادہ پریشانی کا باعث ہوتا ہے کیونکہ ایسی صورت میں وہ کسی واقعے کو اس کی اصل شدت سے بھی زیادہ تصور کر لیتے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر گولزے مزید کہتے ہیں، ‘‘اس بارے میں بات کرنے کے حوالے سے کوئی بھی طریقہ غلط نہیں ہے مگر اس بارے میں بات نہ کرنا ہمیشہ غلط ہوتا ہے۔‘‘
ماہر نفسیات ڑاں سیاؤ فاچن تاہم کہتی ہیں کہ یہ بہتر ہے کہ چھ برس کی عمر سے قبل کے بچوں کو اس بارے میں نہ بتایا جائے کیونکہ اس وقت تک ان میں ’سمجھنے کی صلاحیت‘ نہیں ہوتی۔ وہ مزید کہتی ہیں، ’’اس بارے میں کوئی اصول نہیں ہے، لیکن میرا خیال ہے کہ انہیں اپنی بچوں کی زندگی میں رہنے دینا چاہیے اور انہیں اس طرح کی تصاویر یا الفاظ سے دور رکھا جائے کیونکہ وہ اس کا مطلب سمجھے بغیر صرف جذبات کو دیکھیں گے۔ جو واحد چیز وہ سمجھیں گے وہ نا مکمل اور پریشان کن خوف ہے۔‘‘
تاہم فاچن کا کہنا ہے کہ اگر بچے سوالات کریں تو والدین کو جھوٹ نہیں بولنا چاہیے: ’’بہتر ہو گا کہ انہیں مختصر بتا دیا جائے۔ مثلاﹰ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ’جنگجوؤں نے ملک پر حملہ کیا ہے‘ یا یہ کہ آپ بڑوں کی دنیا میں ہونے والی سنجیدہ نوعیت کی چیزوں پر پریشان ہیں، جن کا تعلق ان سے نہیں ہے۔‘‘
فاچن مزید کہتی ہیں کہ بعض والدین کا خیال ہوتا ہے کہ انہیں اپنے بچوں کو ہر چیز بالکل سچ سچ بتا دینی چاہیے مگر بچے ہم سے اس بات کے عادی ہوتے ہیں کہ ان سے بعض باتوں کے بارے میں بات نہیں کی جاتی۔ مگر چھ برس یا اس سے زائد عمر کے بچوں کے حوالے سے یہ اہم ہے کہ ان سے اس موضوع پر بات کی جائے، خاص طور پر جب اس بات کا امکان ہو کہ یہ موضوع اسکول میں زیر بحث آئے گا، بھلے اساتذہ کی طرف سے یا کھیل کے میدان میں۔
لیکن ان کے سامنے اس طرح کی خوفناک چیزوں کی وضاحت کیسے کی جائے؟ فرانس کے صف اول کے بچوں کے ہفتہ روزہ اخبار سے منسلک خاتون صحافی کیرولین گائٹنر کہتی ہیں کہ اہم بات یہ ہے کہ قتل عام، خونریزی یا خون کی ہولی یا اسی طرح کے الفاظ سے بچا جائے کیونکہ اس طرح کے الفاظ تصاویر سے بھی زیادہ ان میں خوف پیدا کر سکتے ہیں۔ گائٹنر کہتی ہیں کہ ایسے الفاظ ایک طرح سے جذباتی حوالے سے تشدد امیز ہوتے ہیں۔
سیاؤ فاچن کے بقول یہ بات بہت اہم ہے کہ آپ مستقبل کے حوالے سے اپنی پریشانیاں بچوں تک منتقل نہ کریں کیونکہ وہ حال میں رہتے ہیں: ’’والدین کے طور پر آپ کو ہمیشہ ایک نقطہ نظر رکھنے کے بارے میں سوچنا چاہیے۔‘‘