کیا پاکستان نے کوئٹہ میں وکلاء کا قتل عام بھلا دیا؟
8 اگست 2020آٹھ اگست کے دن کا آغاز بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر بلال انور کاسی کے قتل سے ہوا تھا۔ غم و غصے سے بھرپور ساری وکلاء برادری کوئٹہ کے سرکاری ہسپتال میں جمع تھی جب ایک خودکش حملہ آور نے وہاں بھیڑ میں خود کو اڑا دیا۔
اس قتل عام میں 150 کے قریب لوگ زخمی بھی ہوئے تھے۔ حملےکی ذمہ داری مسلح گروہ دولت اسلامیہ خراسان یا داعش نے لی تھی۔
بلوچیستان میں سوگ
چار برس بعد اس ہولناک سانحے کو ملک میں قومی سطح پر اور نیشنل میڈیا میں بظاہر نظر انداز کردیا گیا۔
تاہم بلوچستان میں وکلاء نے ہفتے کو سوگ منایا، عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کیا اور تعزیتی ریفرنسز کا انعقاد کیا گیا۔ کوئٹہ میں مرکزی تعزیتی ریفرنس سے بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جمال خان مندوخیل نے خطاب کیا۔
اس سانحے میں مارے جانے والوں میں سینئر وکیل عطاء اللہ کاکڑ بھی شامل تھے۔ ان کے چھوٹے بھائی بسم اللہ کہتے ہیں کہ اس ظلم کے حوالے سے انصاف کے تقاضے آج تک پورے نہیں کیے گئے۔
ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’ہمیں صرف کھوکھلے بیانات سے تسلیاں دی گئیں۔ جنہوں نے وکلا کا خون بہایا، انہیں انصاف کے کٹہرے میں کون لائے گا؟ ماضی میں اگر دہشتگردوں کے خلاف ٹھوس کارروائی ہوتی تو یہ سانحہ نہ ہوتا۔‘‘
حکومتی کارروائی
سانحہ آٹھ اگست کے چار ماہ بعد اس وقت کے صوبائی وزیرداخلہ سرفراز بگٹی نے کوئٹہ میں ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ اس حملے میں ملوث خودکش حملہ آور احمد علی کی شناخت ان کے بھائی اور والد کے ڈی این اے کے ذریعے کی گئی تھی۔
لیکن وکلاء اور سول سوسائٹی کا حکومت سے مطالبہ رہا ہے کہ علاقے میں دہشتگردی کے نیٹ ورک اور ان کے با اثر سہولت کاروں کو بے نقاب کیا جائے۔
ریاست کی مبینہ بے حسی پر مسلسل تنقید کے جواب میں بعد میں صوبائی وزیرداخلہ نے دعویٰ کیا تھا کہ اس قتل عام کے ماسٹر مائنڈ جہانگیر بادینی کو ضلع پشین میں سیکیورٹی فورسز نے ایک مقابلے میں ہلاک کر دیا تھا۔ تاہم اس دعوے کی مزید کوئی تفصیلات یا ثبوت سامنے نہیں لائے گئے۔
’پوری ایک نسل کا صفایا‘
بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما اور سینئر قانون دان ساجد ترین ایڈوکیٹ کے مطابق بلوچستان کے وکلا ہمیشہ ملک میں آمریت کے خلاف جدوجہد میں پیش پیش رہے ہیں اور اس سانحے نے ملک کی ایک پوری اعلیٰ کلاس کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔
سانحہ آٹھ اگست پر حکومت نے وکلاء تنظیموں اور مختلف سیاسی جماعتوں کی اپیل پر سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائر عیسیٰ کی سربراہی میں ایک انکوائری کمیشن قائم کیا۔
لیکن ساجد ترین ایڈوکیٹ کا کہنا ہے کہ، ’’اس کمیشن کے ساتھ بھی حمود الرحمان کمیشن والا سلوک کیا گیا۔ انکوائری کمیشن نے جتنی بھی سفارشات پیش کیں انہیں نہ صرف نظر انداز کیا گیا بلکہ جسٹس قاضی فائر عیسیٰ کو بھی اسی لیے مقدمات میں گھسیٹا گیا کیونکہ وہ حقائق منظر عام پر لے آئے تھے ۔‘‘
جسٹس فائز عیسیٰ کمیشن
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی قیادت میں انکوائری کمیشن نے ملک میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے حکومت کو جامع حکمت عملی مرتب کرنے، دینی مدارس کی باقاعدہ مانیٹرنگ اور مغربی سرحدوں کی مؤثر نگرانی کی سفارشات پیش کی تھیں۔
کمیشن نے دہشت گرد تنظیموں کے خلاف جاری کارروائیوں پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت عسکریت پسندوں کے خلاف نمائشی اقدامات کی بجائے نیکٹا کے قانون کو مؤثر بنائے۔
انکوائری کمشن نے اس بات پر شدید تنقید کی تھی کہ حکومتی بے حسی کی وجہ سے کوئٹہ میں صوبے کے سب سے بڑے سرکاری اسپتال کی حالت اتنی خراب تھی کہ خودکش حملے کے بعد شدید زخمی ہونے والےاکثر وکلا بروقت ہنگامی طبی امداد سے محروم رہے تھے۔
پاکستان کے سینئر قانون دان اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر کامران مرتضیٰ کہتے ہیں کہ کمیشن کی سفارشات پرتاحال کوئی عمل نہیں کیا گیا۔
’انصاف کی راہ میں حکومت خود رکاوٹ ہے‘
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کامران مرتضیٰ نے کہا، ’’بنیادی بات یہ ہے کہ حکومت انصاف کی راہ میں خود ہی رکاوٹ ہے ۔ سانحہ آٹھ اگست کے کمیشن کی سفارشات پر عمل درآمد تو دورکی بات، اس کمیشن کے سربراہ جسٹس عیسیٰ آج خود اپنی اہلیہ کے ساتھ انصاف کے لیے عدالتوں کے چکر کاٹ رہے ہیں۔ ان تحیقیقات میں کئی خامیاں منظرعام پر آئیں لیکن حکومت نے ان تمام خامیوں پر پردہ ڈال دیا۔ اس لیے اس صورتحال میں بہتری کی امید نہیں۔‘‘
کامران مرتضیٰ نے کہا کہ کوئٹہ میں ایک منظم سوچ کے تحت وکلا کو نشانہ بنایا گیا۔ انہوں نے مذید کہا، ''کوئٹہ میں پاکستان کے نامور وکلا کو جس بے دردی سے ہلاک کیا گیا اس کی ملکی تاریخی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس سانحے سے بلوچستان میں قانون کے شعبے میں جو خلا پیدا ہوا وہ کبھی پر نہیں ہوسکتا۔
پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ خود کو قانون سے بالا تر سمجھتی ہے۔ ناکام پالیسیوں اور سیاسی معاملات میں بے جا مداخلت سے ملک آئے روز بحرانوں سے دوچار ہو رہا ہے۔ ‘‘