ایٹمی تجربات کے نام پر وہ باقی کھاتے سمیٹ لیتے ہیں، وہاں کے عوام کی خبر بھی کبھی ملی آپ کو آزاد میڈیا پر؟ سوویت یونین کتنے برس میں ٹھنڈا ہوا؟ کیا انقلاب ان کو اپنی موت مرنے سے بچا سکا؟ یوگو سلاویہ کے مارشل ٹیٹو کا نام سنا ہے؟ ان کے دور میں کیا گُل کھلائے گئے تھے؟ ایرانی انقلاب کے بعد اب وہاں کے شہری کس حال میں ہیں؟ اور پاکستانی لوکل برانڈ کا انقلاب تو خیر ابھی دودھ پیتا بچہ تھا، وہ کیسے بھول سکتا ہے آپ کو؟
انقلاب کا نعرہ لگانا بڑا آسان ہے، رومینٹک قسم کا لگتا ہے، انقلاب کے لیے سڑک پہ نکل جانا اس سے بھی زیادہ آسان اور دلکش ہے لیکن خود اپنی ذات میں انقلاب ہے کیا؟ اگر یہ اتنا ہی آسانی سے آ سکتا تو دنیا بھر کا ناپسندیدہ سرمایہ دارانہ نظام کب کا ختم ہو چکا ہوتا۔ سچ تو یہ ہے کہ جو ہو رہا ہے وہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ دنیا بھر میں امیر امیر تر ہے اور غریب کے منہ تک نوالہ بھی نہیں جا پا رہا۔
نعرے سب نے لگا لیے، نسلیں بال سفید اور جگر خراب کرا کے بیٹھ گئیں، ہوا کچھ بھی نہیں۔ لیفٹ والوں کے لیے انقلاب خواب ہے، رائٹ والوں کے لیے جہاد، جب کہ سرمایہ دار کے لیے انقلاب دوسروں کو چلائے رکھنے کا بہانہ ہے۔ غریب لوگ نعرے لگاتے رہتے ہیں، طاقتور انہیں میوزک کے طور پر سن کے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
کچھ روز قبل میں نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر ایک تحریر پوسٹ کی تو کسی نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ انقلابی تحریریں کیوں نہیں لکھتیں؟ اس کمنٹ کے بعد ''گئی نہ فکر پریشاں کہاں کہاں میری‘‘ کے مصداق انقلاب اور انقلابی تحریروں کے متعلق سوچنا شروع کر دیا۔
انقلاب کی ایک گزارے لائق تعریف یہ ملی، ''نظام کی تبدیلی۔ ایک ایسے نظام کی تبدیلی، جس میں اکثریت کے حقوق کو اقلیت غصب کر لیتی ہے۔ غاصبانہ نظام کی جگہ عادلانہ نظام کا قیام انقلاب کہلاتا ہے۔‘‘
اس تعریف میں جتنے لفظ ہیں، وہ سارے کے سارے لولی پاپ ہیں۔ پچھلے دو ہزار برسوں میں انسان انہی بہلاوؤں کے آسرے پہ ایسے آگے بڑھتا رہا ہے، جیسے گدھے کے منہ پر گھاس باندھی ہو اور وہ اسے کھانے کے چکر میں ایک ایک قدم آگے بڑھاتا جا رہا ہو لیکن گھاس بھی ساتھ ساتھ آگے جاتی جائے۔ کیوں کہ گھاس باندھی ہی اس حساب سے ایک فٹ دور گئی ہے۔
نظام کی تبدیلی سب سے دھندلا نعرہ ہے انقلاب کا۔ جو یہ نعرہ لگاتے ہیں کبھی ان سے یہ پوچھ کر دیکھ لیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا نظام آئین کے مطابق ہے کیا؟ اگر وہ بتا سکیں تو ان سے پوچھیں کہ متبادل نظام آپ کے پاس کیا ہے؟ وہیں ڈھیر ہو جائیں گے سارے۔
’’ساڈا حق ایتھے رکھ‘‘، یہ نعرہ بھی اسی تعریف سے نکلا ہے۔ سڑک پہ نکل کر کتنے حق آج تک کس کس کو ملے ہیں؟ قانون کی نظر میں یہ نعرہ ہے یا اس پر عمل قابل دخل انداز پولیس جرم؟ اگر عدلیہ مخاطب ہے تو سدھا سدھا توہین عدالت کیس بنے گا، مطلب یہ بھی پٹ گیا۔
غاصب کی تعریف آپ کیا کریں گے؟ یہ بھی اسی تعریف کا لفظ ہے۔ کون غاصب؟ جمہوری طریقے سے منتخب ہونے والا حکمران غاصب یا راتوں کو ملنے کے بعد سلیکٹ ہونے والا حکمران غاصب؟ یا اپنی اپنی باری پر دونوں غاصب؟ کس سے خطرہ ہے اصل میں آپ کو ؟ پوچھیں! جسے انقلاب کے نعرے سوجھتے ہیں، اس سے پوچھیں۔
عادلانہ نظام کا قیام اس تعریف کی آخری شرط ہے۔ علاقہ غیر کے پٹھانوں کو آج بھی جرگہ زیادہ عادلانہ لگتا ہے، آپ کی عدالت انہیں کوئی خاص مطمئن نہیں کر پاتی اور ویسے آپ کی نظر میں عدل کے تقاضے کون سے ہیں؟ کیا ایک ہندو، مسلمان، سکھ، مسیحی، سب کے لیے وہ تقاضے برابری کا سامان پیدا کرتے ہیں؟ نہیں کرتے تو اس انقلابی ریاست کی پہلی اینٹ آخر کدھر سے رکھنی ہے؟
انقلاب بس لاٹھی ٹیک کے چلتا ہوا ایک بابا ہے، جسے آنے جانے والے چھیڑتے ہیں، وہ انہیں گالیاں دیتا ہے اور چھیڑنے والے خوش ہو جاتے ہیں۔ انقلاب سمجھتا ہے میں آ رہا ہوں، گالیاں کھانے والے سمجھتے ہیں ہم انقلاب لا رہے ہیں، جو اصل بادشاہ لوگ ہیں وہ مونچھوں کو تاؤ دینے کے لیے روغن بھی اسی بابائے انقلاب کی مزدوری سے خریدتے ہیں۔
جنہیں اب بھی سمجھ نہیں آئی، وہ یاد رکھیں کہ اس بار تو پاکستان کوئی تھوڑا بہت زور لگا کے انقلاب سے نکل آیا ہے، اگلی بار تجربہ بھی کیا تو شمالی کوریا یا ایران والا حال ہوگا۔ تو اس لیے بہتر ہے کہ بچوں والی ضد چھوڑ کے انقلاب کی رومانویت سے باہر نکلیں اور پاکستان کے معروضی حقائق کو دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ کریں کہ اصل میں قصوروار ہے کون؟
اور جو آپ کو سمجھ آ گئی اور پھر بھی آپ انقلاب لانے کے در پر ہوئے، تب میں مان جاؤں گی کہ واقعی بندہ جگر والا ہے اور دل سے انقلاب لانے کا خواہشمند ہے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔