1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا پاکستانی صحافی کا نام ای سی ایل میں فوج نے ڈالوایا ؟

بینش جاوید
12 اکتوبر 2016

پاکستان کے اعلیٰ حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے ڈان کے صحافی سرل المائڈا کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں اس لیے شامل کیا ہے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ کس نے اس صحافی کو انتہائی حساس اجلاس کے بارے میں معلومات فراہم کیں۔

https://p.dw.com/p/2R9Sz
Pakistan Raheel Sharif in Rawalpindi
تصویر: ISPR

پاکستان کے انگریزی اخبار ڈان نے چھ اکتوبر کو سرل المائڈا کا مضمون شائع کیا تھا جس میں پاکستان کی سول اور عسکری قیادت کے درمیان دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کاروائی کے معاملے پر اختلافات کے بارے میں رپورٹ کیا گیا تھا۔ پاکستانی حکومت تین مرتبہ اس کہانی کی تردید کر چکی ہے۔

آج پاکستان کے سوشل میڈیا پر ’ڈان اسٹوری ری ایکشن‘ ٹرینڈ کر رہا ہے۔ ڈان اخبار کے ایڈیٹر ظفر عباس نے آج  ’ڈان اسٹوری ری ایکشن‘ کے نام سے ایک طاقتور اداریے میں لکھا ہے، ’’میڈیا کا کوئی بھی ادارہ غلطی کر سکتا ہے اور یہ غلطی ڈان سے بھی ہو سکتی ہے لیکن ہمیں اس بات پر یقین ہے کہ ڈان نے اس رپورٹ کو انتہائی پیشہ وارانہ انداز میں پیش کیا ہے اور مختلف ذرائع کی جانب سے تصدیق کے بعد  اس رپورٹ کو شائع کیا گیا تھا۔‘‘

پاکستانی سکیورٹی امور کے ماہر محمد عامر رانا نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا،’’ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو اس شخص کی تلاش ہے جس نے اس کہانی کے مواد کو لیک کیا، حکومت نے سارا دباؤ اس معلومات کے پیغام رساں پر ڈال دیا ہے۔‘‘ عامر رانا کہتے ہیں کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کچھ صحافیوں اور میڈیا کے اداروں سے خوش نہیں ہے۔ اگر فوج نے سرل المائڈا کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ پر ڈالنے کا  نہیں کہا تو آئی ایس پی آر نے اس حوالے سے کوئی بیان جاری کیوں نہیں کیا۔

پاکستان میں بین الاقوامی میڈیا کے لیے کام کرنے والے صحافی اور سرل المائڈا کے قریبی دوست  طحہٰ صدیقی نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا، ’’سرل المائڈا کا نام فوری پر ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکالا جانا چاہیے، یہ صرف ایک صحافی پر نہیں بلکہ تمام صحافیوں پر حملہ ہے، ہمیں اطلاعات ملی ہیں کہ حکوت المائڈا کے خلاف مزید ایکشن لینے کا سوچ رہی ہے۔ یہ حقیقت کہ کوئی بھی اس کہانی کے مواد اور غیر ریاستی عناصر کے خلاف کاروائی کرنے کی بات نہیں کر رہا ہے، ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان میں جہادی گروہوں کو صحافیوں سے زیادہ تحفظ حاصل ہے۔‘‘

پاکستان میں چند صحافیوں اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ  سرل المائڈا کی کہانی کے بعد کا ردعمل پاکستان کے سول اور عسکری حکام میں تناؤ ظاہر کرتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں چارمرتبہ فوجی جرنیل پاکستان کے عوام پر حکومت کر چکے ہیں۔ آج تک پاکستان میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ فوجی اور سول حکومت کئی معاملات پر اختلاف رائے رکھتے ہیں جو اکثر سول حکومت اور فوجی قیادت کے درمیان کشیدگی کا باعث بن جاتی ہے۔ سن 1999 میں آج ہی کے روز ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف  نے اس وقت کے وزیر اعظم  نوازشریف کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا۔ نواز شریف پر طیارہ سازش کیس کا مقدمہ چلایا گیا اور پھر انہیں ایک معاہدے کے تحت سعودی عرب روانہ کردیا گیا تھا۔

ظفر عباس ڈان کے اداریے میں مزید لکھتے ہیں کہ وہ اس رپورٹ کی پوری ذمہ داری خود لیتے ہیں اور حکومت سرل المائڈا کا نام فوری طور پر ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکالے۔ ظفرعباس نے لکھا کہ ماضی میں میڈیا کے اداروں نے اپنی ریاستوں کی ’قومی مفاد‘ کی تعریف کے خلاف بڑی اور انتہائی اہم کہانیاں شائع کیں ہیں  جیسے کہ ’پینٹاگون پیپرز‘، ’ابوغریب جیل کی تصاویر‘ اور ’وکی لیکس‘

عامر رانا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’ ہو سکتا ہے کہ حکومت المائڈا کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکال دے لیکن اس سارے معاملے نے ملک میں سول اور ملٹری اختلافات کو ظاہر کر دیا ہے۔‘‘

 طحہٰ صدیقی کہتے ہیں کہ پاکستان کی فوج نے ماضی میں آئی ایس پی آر کی پریس ریلیزوں کے ذریعے حکومت کو کئی متربہ ڈانٹ پلائی ہے۔ یہ پیغام بھی پہنچایا ہے کہ وہ گورننس پر توجہ دے۔ اب پہلی مرتبہ سول حکومت فوج کو بتا رہی تھی کہ فوج کیسے ایک مسئلہ ہے۔ لیکن بجائے اس کے کہ حکومت کی نشاندہی پر فوج میں اندرونی طور پر اس معاملے کی انکوائری کرائی جاتی، فوج نے الٹا حکومت پر صحافت پر پابندی عائد کرنے کے لیے زورڈالا ہے۔ طحہٰ صدیقی کہتے ہیں،’’ اگر فوج کا دباؤ نہ ہوتا تو وزارت داخلہ سرل المائڈا کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں نہ ڈالتی۔‘‘