اسٹیٹس کو میں چھیڑ چھاڑ سے گریز کریں، بھارت چین میں اتفاق
7 جولائی 2020بھارتی وزارت خارجہ کے مطابق قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوال کی چینی وزیر خارجہ وانگ ای سے گفتگو میں اس بات پر اتفاق ہوا کہ کشیدگی کے خاتمے کے لیے فوجیوں کی نقل و حرکت محدود کرنے کی ضرورت ہے۔ سرکاری بیان میں کہا گیا کہ فریقین نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ دونوں جانب سے، "موجودہ کشیدگی کم کرنے کا جو عمل جاری ہے اسے جلد از جلد مکمل ہونا چاہیے۔ دونوں نے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ فریقین ایل اے سی کا سختی احترام اور لحاظ کریں گے اور اسٹیٹس کو سے چھیڑ چھاڑ کے لیے کسی بھی یکطرفہ کارروائی سے گریز کریں گے۔"
دوسری جانب چینی وزارت خارجہ نے سفارتی اور فوجی سطح پر ہونے والی بات چیت میں "پیش رفت کا خیر مقدم کیا ہے۔"
چینی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ فریقین نے اس بارے میں مزید بات چیت جاری رکھتے ہوئے زور دیا ہے کہ "سرحد پر بھارت اور چینی فوجی کمانڈروں کی سطح کی بات چیت میں جن امور پر اتفاق ہوا ہے اس پر سختی سے عمل کیا جائےگا، اور محاذ پر تعینات فوجیوں کی سرگرمیوں کو جتنی جلدی ممکن ہو مکمل طور پر ختم کیا جائے گا۔"
لیکن وادی گلوان میں جو کچھ بھی ہوا اس حوالے سے چین نے اپنے بیان میں سخت الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے کہا کہ وہاں جو کچھ بھی ہوا وہ بالکل واضح ہے۔ "چین سرحد پر امن کے قیام کے ساتھ ہی سختی سے اپنی علاقائی سلامتی کا تحفظ کرتا رہے گا۔"
گزشتہ ماہ لداخ کی وادی گلوان میں بھارت اور چینی فورسز کے درمیان خونریز تصادم کے بعد سے حالات کشیدہ ہیں۔ اس تصادم میں بھارت کے 20 فوجی ہلاک ہوگئے تھے۔
چین کے ساتھ کشیدگی کی وجہ سے بھارت نے بہت سی چینی ایپز پر پابندیاں عائد کرتے ہوئے معاشی بائیکاٹ جیسے اقدامات بھی کیے ہیں۔ اس حوالے سے چین نے کہا کہ "دونوں ملکوں کو اس بات پر گہرائیوں سے توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ آخر دوطرفہ رشتوں کس پیچیدہ صورتحال کا سامنا ہے اور اسے جلد از جلد تبدیل کرنے کے لیے ساتھ میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔"
چینی وزارت خارجہ کا کہنا تھا، "ہمیں امید ہے کہ عوامی رائے کو درست سمت دینے کے لیے بھارت چین کے ساتھ مل کر کام کرسکتا ہے، اختلافات کو ہوا دینے سےگریز کرکے، تعاون جاری رکھ سکتا ہے۔"
دونوں ملکوں کے ان بیانات سے ایسا لگتا ہے کہ سرحدی تنازعہ حل ہوگيا ہے اور موجودہ کشیدگی اب محض چند روز کی بات ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا چین لداخ کے ان علاقوں کو بھارت کے لیے خالی چھوڑ دےگا جس پر دونوں کا دعوی ہے؟ کیا دونوں فوجیں پیچھے ہٹ جائیں گی اور فورسز کی تعیناتی کا عمل رک جائے گا؟ کیا وادی گلوان اور پینگانگ جھیل میں بھارتی فوجیں پھر سے انہیں علاقوں میں گشت کرنے لگیں گی جہاں وہ رواں برس اپریل سے پہلے کیا کرتی تھیں؟
یہ سب ابھی واضح نہیں، خاص طور پر ایسی صورتحال میں جب بھارت کی جانب سے لداخ میں فوج کی تعیناتی کا عمل اب بھی پوری مستعدی سے جاری ہے۔ بھارتی میڈيا میں یہ خبریں شہ سرخیوں میں ہیں کہ بات چیت میں پیش رفت کے باوجود فوج نے اپنی تیاریوں اور الرٹ میں کمی نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وادی کشمیر سے اب بھی لداخ کی جانب لشکری قافلوں کے جانے کا سلسلہ جاری ہے جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ سرحد پر حالات اب بھی کشیدہ ہیں۔