کیا کرزئی افغانستان میں امریکا کے راستے کا پتھر ہیں؟
7 فروری 2014خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق افغان جنگ کے آغاز پر یوں لگتا تھا کہ امریکا بہت آسانی سے افغانستان میں طالبان کا خاتمہ کر کے وہاں ایک جمہوری حکومت کے قیام کا ہدف حاصل کر لے گا، مگر اس جنگ کو بارہ برس سے زائد گزر جانے کے باوجود اب بھی افغانستان سے فوجی انخلاء کا عمل وہاں سلامتی کی صورتحال اور مستقبل کے حوالے سے اپنے اندر کئی طرح کے سوالات لیے ہوئے ہے۔
افغانستان میں کسی وقت میں امریکا اور مغرب کے انتہائی قریبی سمجھے جانے والے صدر حامد کرزئی واشنگٹن انتظامیہ کے ساتھ طے کردہ باہمی سکیورٹی معاہدے پر دستخطوں سے انکار کر چکے ہیں اور اب تک یہ واضح نہیں کہ آیا سن 2014ء کے بعد افغانستان میں غیرملکی فوجی تعینات رہ پائیں گے یا نہیں۔ کرزئی رواں برس اپریل میں صدارتی انتخابات کے بعد منصب صدارت نئے منتخب صدر کے حوالے کر دیں گے، کیوں کہ وہ دستوری طور پر تیسری مرتبہ عہدہ صدارت کے امیدوار نہیں ہو سکتے۔
حامد کرزئی افغانستان میں امریکی مداخلت کے بعد طالبان حکومت کے خاتمے کے نتیجے میں منصب صدارت تک پہنچے تھے، تاہم افغانستان سے طالبان کا مکمل خاتمہ نہیں ہو پایا اور اب یہ خدشات اپنی جگہ موجود ہیں کہ آیا غیرملکی فوجی انخلا کے بعد افغان سکیورٹی دستے طالبان کی جانب سے افغانستان پر دوبارہ کنٹرول کی کسی ممکنہ کوشش کو روک پانے کی صلاحیت کے حامل ہوں گے یا نہیں۔
امریکا پریشان کیوں ہے؟
امریکی حکام، جو کئی ماہ کے مذاکرات کے بعد کابل حکومت کے ساتھ ایک باہمی سکیورٹی معاہدے کا مسودہ تیار کرنے میں کامیاب ہوئے تھے، پرامید تھے کہ کابل حکومت اس پر دستخط کر دے گی۔ پھر افغان قبائلی عمائدین اور رہنماؤں کے سب سے اہم اجلاس لویہ جرگہ کی طرف سے بھی اس مسودے کی منظوری کے بعد یہ بات تقریباﹰ طے تھی کہ اب صدر کرزئی بھی اس پر دستخط کر دیں گے۔ تاہم صدر کرزئی نے اس معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔ کرزئی کا موقف ہے کہ افغانستان کا اگلا صدر اس معاہدے پر دستخط کرے گا۔
اس معاہدے کے تحت افغانستان میں رواں برس کے بعد بھی امریکی فوجیوں کی تعیناتی ممکن ہو سکے گی، جو دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں اور تربیت کے حوالے سے افغان فورسز کی معاونت کر سکیں گے۔ ایسی صورت حال میں واشنگٹن حکومت کی پریشانی کا اندازہ امریکی وزیردفاع چک ہیگل کے اس تازہ بیان سے بھی ہوتا ہے، جس میں ان کا کہنا تھا کہ اختلاف کی کوئی حد ہوتی ہے، کیوں کہ اس کے بعد منصوبہ بندی اور بجٹ معاملات آپس میں ٹکرا جاتے ہیں اور چیزیں ممکن نہیں رہتیں۔
افغان فورسز پریشان کیوں؟
امریکی جنرل ڈیمپسی کے مطابق افغان پولیس اور فوج کی استعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، تاہم یہ امکانات کہ شاید رواں برس کے بعد کوئی امریکی فوجی افغانستان میں تعینات نہ رہے، افغان اہلکاروں کو خوف اور پریشانی میں مبتلا کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے، ’افغان فوجیوں کو پریشانی ہے کہ ہم ان کی معاونت کریں گے یا نہیں؟‘
امریکی انسٹیٹیوٹ برائے امن کی ایک تازہ رپورٹ میں بھی کہا گیا ہے، ’’افغانستان کے مشرقی علاقے میں جہاں تقریباﹰ ہر خاندان سے ایک نہ ایک مرد فوج میں بھرتی ہوتا تھا، تاکہ کمائی کر سکے، اب لوگ اپنے بیٹوں کو فوج میں بھرتی کرانے سے کتراتے نظر آتے ہیں۔‘‘