مکینک صاحب کی تلاش میں مارے مارے پھرے۔ اِدھر اُدھر فون گھمائے تو معلوم ہوا کہ حضرت اس وقت تو محو استراحت ہوں گے اور دن کے 12 بجے سے پہلے تو ہرگز بیدار نہیں ہو سکتے۔ اس کے بعد چائے ناشتہ کا سلسلہ اور پھر تقریباً دو ڈھائی بجے دن کے روزمرہ معمولات کا آغاز ممکن ہو گا۔
سوائے انتظار کے کوئی چارہ نہ تھا تھا۔ دو بجے کے بعد رابطہ ممکن ہوا۔ مکینک صاحب نے شان بے نیازی سے ہماری فوری آنے کی درخواست قبول فرمائی۔ اور ہم دیدۂ دل فرشِ راہ کیے منتظر ہو گئے۔ لیکن جناب یہ انتظار چار بجے کے قریب جا کر ختم ہوا اور مکینک صاحب نے ہماری دہلیز پر اپنے قدم رنجہ فرمائے۔
خدا خدا کر کے موٹر کا کام مکمل ہوا تو ہم نے سوچا کہ لگے ہاتھوں اوپر کے پورشن میں ایک اضافی سنک کا کنکشن بھی کروا لیا جائے۔ لیکن ہماری یہ آرزو پوری نا ہوئی اور مکینک صاحب فرمانے لگے کہ یہ کام آج نہیں بلکہ کل کریں گے۔ یہ کہہ کر وہ چلتے بنے۔ سمجھ نہیں آتا کہ اس رویے کو سستی کہا جائے، کاہلی کہا جائے یا ناشکری۔
یوں تو سستی اور کاہلی کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور ہم اگر اپنے معاشعرتی رویوں کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کاہلی کو ہماری قوم نے اپنا خاصہ تسلیم کر لیا ہے۔ یعنی اگر کہا جائے کہ پاکستانی اور سستی دو نہیں ایک لفظ ہے تو بے جا نہ ہو گا۔ ہماری روزمرہ زندگی میں کاہلی کے مظاہرے جابجا دیکھنے کو ملتے ہیں۔
صبح سویرے جاگنے کی بات ہو یا کسی تقریب میں شرکت کا موقع ہو، پاکستانیوں سے زیادہ سست قوم شاید ہی کوئی ہو۔
ایک طرف تو مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ ہر شخص پریشان نظر آتا ہے کیونکہ اس مہنگائی کا اثر سبھی لوگوں پر پڑ رہا ہے تو دوسری طرف ایسے رویے آپ کو سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں کہ اتنے مشکل حالات میں بھی یہ کونسی قوم ہے، جو محنت کے بجائے بارہ بجے سو کو اٹھنے کو بطور عادت اپنائے ہوئے ہے۔
اور اتنا خوبصورت عذر پیش کیا جاتا ہے کہ جناب رات دیر تک جاگنے کی عادت ہے۔ لہذا صبح سویرے جاگ جائیں تو نیند پوری نہیں ہوتی۔ سر بھاری رہے گا اور کام نہیں ہو گا۔
پھر ایسے لوگوں سے پوچھنا چاہیے کہ جناب کام تو آپ سے ویسے بھی نہیں ہو گا۔ چوبیس گھنٹے میں سے شاید دو گھنٹے ایسے ہوتے ہوں گے کہ جو صحیح معنوں میں کام میں صرف ہوئے ورنہ ایک خوبی ہماری قوم میں بدرجہ اتم موجود ہے اور وہ ہے ٹائم کو ضائع کرنے کی صلاحیت۔
اپنا کام کرنے والے تو چلیں بادشاہ ٹھہرے۔ آپ ملازمت پیشہ افراد کا حال دیکھیں تو وہ بھی اس سے کچھ الگ نہیں۔ ڈنڈے کے زور پر آجر نے، جو محنت کروا لی، سو مجبوری ٹھہری لیکن اپنی طرف سے کاہلی اور سستی میں کوئی کسر نہیں رہنے دیتے۔
رات دیر سے سوئے تھے لہذا صبح آنکھ نہیں کھلی۔ جب آنکھ دیر سے کھلی تو ناشتہ کرنے کا وقت نہیں بچا ہے سو بھاگم بھاگ لیٹ دفتر پہنچے۔ آدھا گھنٹہ یا 15 منٹ لیٹ ہونا تو لیٹ کہلاتا ہی نہیں وہ تو ہمارا اسٹینڈرڈ ٹائم ہے۔ اب چونکہ گھر سے ناشتہ کر کے نہیں آئے ہیں تو لہذا دفتر میں ہی یہ کارخیر بھی انجام دیا جائےگا۔ پرائیویٹ اداروں میں تو سپروائزر یا منیجر سر پہ موجود ہو تو بادل ناخواستہ کچھ کام کر ہی لیا جاتا ہے لیکن سرکاری دفاتر کا حال تو نا ہی پوچھیے۔ چائے ناشتے سے فراغت کے بعد سوچا جاتا ہے کہ اب کام شروع کیا جائے۔ اسی سوچ بچار میں کچھ گھنٹے اور سرک جاتے ہیں کہ لنچ بریک کا وقت ہو جاتا ہے اور پھر تمام عملہ اس شعر کی تفسیر بن جاتا ہے کہ:
کیوں فقط کام، فقط کام، فقط کام کروں
کیوں نہ اک کام کروں پھر فقط آرام کروں
چلیں اگر کام میں دل نہیں لگتا اور ایسے رویوں کا مظاہرہ کیا جاتا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ زندگی کے دیگر معاملات میں بھی ہمارا حال کچھ مختلف نہیں۔ شادی بیاہ کی تقریبات میں ہمارے معاشرے میں انتہائی ذوق و شوق سے شرکت کی جاتی ہے۔ اس کے باوجود مشکل سے ہی کوئی ایسی تقریب دیکھی ہے، جو بتائے گئے وقت پر منعقد ہو پائی۔
اس صورت حال میں وقت پر پہنچنے والوں کا استقبال یا تو آوارہ کتے کرتے ہیں یا پھر کوئی ضرورت مند موبائل فون کا طلب گار بن کر آجاتا ہے۔ یہ بات سچ ہے کہ ہمارے ملک میں اگر کوئی سست نہیں ہے تو وہ چور ڈاکو ہیں۔ یہ لوگ کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، جہاں بھی آپ کو سناٹے میں پا لیں تو حال چال پوچھ کر ہی چھوڑتے ہیں اور بندہ ''ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم‘‘ کی تصویر بنا سوچتا ہے کہ مجھے کیا پڑی تھی، جو وقت پر پہنچ گیا۔ اس کے بعد انتظار کی گھڑیاں ختم ہونے تک آپ کے صبر کے سارے پیمانے لبریز ہو چکے ہوتے ہیں۔
کچھ ہوشیار باش لوگ یہ مشورہ بھی دیتے ہیں کہ اگر سستی اور کاہلی سے نمٹنا ہے تو اپنی گھڑی کو دس پندرہ منٹ آگے رکھو۔ اس سے آپ کو احساس ہو گا کہ آپ لیٹ ہو چکے ہیں اور آپ تھوڑا چستی کا مظاہرہ کریں گے لیکن مسئلہ تو یہ ہے کہ ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہماری گھڑی دس منٹ آگے ہے، لہذا ابھی دس منٹ مزید ہیں اور یوں ہم اپنا کام مذید دس منٹ کے لیے ٹال دیتے ہیں۔
وہ مشہور جملہ تو آپ نے سنا ہو گا کہ ''کام تو چلتے ہی رہتے ہیں‘‘ اور ویسے بھی اگر ملک ترقی نہیں کر رہا تو یہ تو حکومت کا کام ہے عوام کا اس سے کیا لینا دینا۔
ہمارا تو وہ حال ہے کہ اگر کمائی اخراجات پورے نہیں ہوتے تو اوپر کی کمائی کا ذریعہ ڈھونڈ لیا جاتا ہے۔ کیونکہ اتنا کام کر کر کے اپنی جان ہلکان کرنا بھلا کہاں کی عقل مندی ہے؟
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔