1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا ہماری عوام پولیانا سینڈروم کا شکار ہے؟

26 ستمبر 2021

کینٹ کے حالیہ الیکشن میں تمام سیاسی پارٹیوں کے کارکنان کا جوش و خروش دیدنی تھا۔ یقیناﹰ یہ تمام کارکنان اس امید پر دن رات ایک کیے ہوئے تھے کہ منتخب ہونے والے رہنما ان کے علاقوں میں بہتر صورتحال کے ضامن ہوں گے۔

https://p.dw.com/p/40sPx
DW Urdu Blogerin Tahira Syed
تصویر: Privat

اور یہ سیاست دان ان کی زندگیوں میں آسانی کا موجب بننے والے ہیں، امید پر ہی دنیا قائم ہے۔ لیکن جب سچ آپ کے سامنے کھلی کتاب کی مانند ہو، ماضی کی تمام کارگزاریاں اور موجودہ حالات و واقعات آپ کو حقیقت کی نشاندہی کر رہے ہوں لیکن آپ ان سب سے صرف نظر کیے اپنے سیاسی رہنما کو ہی اپنا نجات دہندہ سمجھتے رہیں تو پھر یہی کہا جا سکتا ہے کہ شاید آپ پولیانا سینڈروم کا شکار ہو چکے ہیں۔ اس بیماری کے بارے میں پڑھتے ہوئے مجھے لگا کہ شاید بطور قوم ہم سب اسی سینڈروم کا شکار ہیں۔ 

دراصل اس بیماری میں مریض کا دماغ صرف مثبت یادیں اپنے اندر محفوظ رکھ پاتا ہے۔ منفی خیالات کو مکمل طور پر رد کر دیتا ہے یا پھر اور فوراً ہی بھلا دیتا ہے۔ اس بیماری کی دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر مریض کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آ جائے تو اس سے متعلق تکلیف دہ مناظر اس کے دماغ میں محفوظ نہیں رہ پائیں گے۔ اس کے برعکس وہ کوئی مثبت نتیجہ نکال کر اس واقعے کو یاد رکھ پائے گا۔ آپ میں سے اکثر لوگ سوچ رہے ہوں گے کہ مثبت سوچ رکھنا تو صحت کے لیے بہت اچھا ہے۔ لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہر چیز کی زیادتی نقصان دہ ہوتی ہے اور ایسے ہی مثبت سوچ کی زیادتی بھی بیماری کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ اور اگر آپ کی اس مثبت سوچ کے پیچھے حقیقت کا کوئی عمل دخل نہ ہو تو یہ خیالی پلاؤ ہی کہلائے گی۔ ایسے شخص کی آنکھوں پر جھوٹ کی پٹی بندھ جاتی ہے اور پھر وہ سچ کو ماننے کے قابل ہی نہیں رہتا۔ 

دیکھا جائے تو ہماری پوری قوم کچھ اسی طرح کے رویوں کا اظہار کرتی نظر آتی ہے۔ ہر سیاسی پارٹی کے حمایتی دل و جان سے اس بات کے قائل نظر آتے ہیں کہ آج اگر ان کا پسندیدہ لیڈر برسراقتدار آ جائے تو بس اس ملک کی کایا پلٹ جائے گی۔ تمام دکھ درد دور ہو جائیں گے۔ جتنے نلکوں میں پانی نہیں آ رہا ان سے شاید دودھ کی نہریں جاری ہو جائیں۔ تمام بھوکے سونے والے لوگوں کے لئے میک ڈونلڈ سے کھانا دستیاب ہو گا۔ کراچی میں گرمی کے بجائے برف باری ہونے لگے گی۔ جس قوم کو 74 سالوں میں پینے کا صاف پانی میسر نہ آ سکا، اسے آج بھی یہ لگتا ہے کہ ہمارے پسندیدہ سیاسی لیڈر کے پاس ہی ان تمام مسئلوں کا حل ہے۔ جبکہ مخالف جماعت صرف ملک کو تباہ اور برباد کر رہی ہے۔

 کسی بھی معاملے کا جائزہ لینے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ ذاتی پسند اور ناپسند سے ہٹ کر آپ تمام پہلوؤں کو دیکھتے ہوئے کسی کے عمل کو صحیح یا غلط قرار دیں۔ لیکن ہمارا عمومی رویہ یہ نظر آتا ہے کہ ہماری ناپسندیدہ جماعت نے اگر حکومت بنا لی ہے تو اس کی فارن پالیسی یقیناً بالکل غلط ہی ہے۔ معیشت کا تو بیڑا غرق ہی ہونا ہے۔ قرضے بھی بہت زیادہ لے لیے ہیں اور جو روز روز گاڑی کا ٹائر پنچر ہو رہا ہے، وہ بھی شاید اسی حکومت کا قصور ہے۔ 

ان تمام تبصروں کے درمیان یہ بات بالکل یاد نہیں رہتی کہ ہماری پسندیدہ جماعت جب برسر اقتدار تھی تو اس دوران کیا کیا مسائل تھے؟ حکومت کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے عوام کتنا پستی رہی۔ اس دوران معیشت کا کتنا بیڑا غرق ہوا اور کون سی چیز کتنی مہنگی ہوئی کچھ یاد نہیں رہتا۔

 کسی بھی جماعت کے دور حکومت میں ملکی حالات ایک جیسے نہیں رہا کرتے۔ حالات و واقعات بدلتے رہتے ہیں، جس کے نتیجے میں حکومتوں کو مختلف فیصلے لینے پڑتے ہیں۔ ایک حکومت کا دوسری حکومت سے موازنہ کرنا ماہرین کا کام تو سکتا ہے لیکن عام عوام کے بس کی بات نہیں۔

 صرف ایک بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ آج تک جتنی بھی حکومتیں آئیں، کسی ایک نے بھی پوری دلجمعی سے ملک و قوم کی خدمت نہیں کی۔ نہ ڈیم بننے اور نا ہی یونیورسٹیز بنیں۔ نا تعلیم کا معیار بہتر ہوا اور نا ہی صحت کی سہولیات، نہ غریب کو پینے کا صاف پانی ملا اور نہ سر چھپانے کو مکان۔ آج بھی اندرون سندھ کی عوام پتھر کے دور میں جی رہی ہے۔ قحط زدہ بیمار چہرے، لاغر جسم، جہالت کے اندھیروں میں ڈوبے ہوئے دماغ اپنے لیڈر کے زندہ باد ہونے کے نعرے لگاتے زومبی سے کم نہیں لگتے۔

 وہ لیڈر جس کے اپنے بچے باہر کی یونیورسٹی میں اعلی تعلیمی سہولیات سے فیض یاب ہو رہے ہوتے ہیں۔ خود کو دنیا کی تمام بہترین نعمتوں کا حقدار سمجھتے ہوئے دھڑلے سے عوام کا حق مار کے اپنی جیبوں میں بھر لیتے ہیں۔ ایک سیاسی لیڈر اپنے کتے پر ایک دن میں جتنا خرچ کرتا ہے، وہ ایک غریب خاندان کے پورے مہینے کا راشن ہو سکتا ہے۔

 پچھلے 74 سالوں میں سیاسی لیڈروں نے عام آدمی کو نعرے تو بہت دیے لیکن ایسی طویل المعیاد پالیسیاں بنانے میں ناکام رہے، جو عوام کا معیار زندگی بدل دیتیں۔ نا ان کی زندگی روشن ہوئی اور نا ہی ان کے دماغوں کو شعور کی روشنی ملی۔ شرح خواندگی بڑھانے کے صرف نعرے ہی لگائے گئے۔ عملی اقدامات صرف اس حد تک کیے گئے کہ اگلے الیکشن میں کیش کرائے جا سکیں۔

 ہر سیاسی رہنما کی توجہ صرف اگلا الیکشن جیتنے تک ہی رہتی ہے۔ ان کے نعروں سے شرح خواندگی تو نہ بڑھ سکی البتہ تعلیم کا معیار تیزی سے نیچے آتا رہا۔ حد تو یہ ہے کہ آج بھی ہمارے ہاں ایک خواندہ شخص کی تعریف صرف اتنی ہے کہ وہ اپنا نام لکھنا جانتا ہو۔ شرح خواندگی کے بتائے گئے اعداد و شمار اسی تعریف کی روشنی میں طے کیے جاتے ہیں۔ 

پھر بات کریں بنیادی سہولیات کی تو کوئی ایک بھی حکومت عوام تک پینے کا صاف پانی تک نہ پہنچا سکی۔ آج بھی 40 فیصد اموات کی وجہ پینے کا صاف پانی مہیا نہ ہونا ہے۔ جبکہ 30 فیصد بیماریاں پینے کے گندے پانی کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ ہیپاٹائٹس سے مرنے والوں کی تعداد بھی کچھ کم نہیں۔ ایڈز جیسی بیماری بچوں تک میں ایک وبا کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ اپنے ملک میں اعلی تعلیم کے خواب تو جانے ہی دیجئے ہم تو آج تک بنیادی تعلیمی نصاب پر ہی متفق نہ ہو سکے۔

 مجموعی قومی پیداوار اور فی کس آمدنی کی شرح میں ہم بنگلہ دیش سے بھی پیچھے رہ گئے ہیں۔ بنگلہ دیش کی مثال اس لیے دی جاتی ہے کہ صرف پچاس سال پہلے ہمارے ہی ملک کا ایک حصہ جو کہ ہمارے ہی جیسے مسائل کا شکار تھا۔ لیکن آج دیکھتے ہی دیکھتے ہم سے زیادہ ترقی کی منازل طے کر چکا ہے۔ 

ہماری عوام کی مثال اس بیوی جیسی ہے، جو اپنے شوہر کی تمام زیادتیاں صرف نظر کر کے کہتی ہے کہ ’’مارتا ہے تو کیا ہوا ایک بار شاپنگ بھی تو کرائی تھی۔‘‘ گالیاں کھانے کے بعد کہتی ہیں کہ ’’زبان کا برا ہے لیکن دل کا بہت اچھا ہے۔‘‘ کچھ ایسی ہی خوش فہمیاں ہم نے اپنے سیاسی لیڈران سے بھی وابستہ کر رکھی ہیں کہ ’’کھاتا ہے تو کیا ہوا لگاتا بھی تو ہے۔‘‘

 ان کی کرپشن ہمیں کرپشن نہیں لگتی، ان کی برائی ہمیں برائی نہیں لگتی۔ ان کے لئے ہماری سادہ لوح عوام اپنے سینے پر گولی کھانے کو تیار ہوتی ہے۔ شخصیت پرستی میں ہم اس حد تک جاتے ہیں کہ سیاسی اختلافات کی بنیاد پر بچپن کے دوست سے بھی لڑنے مرنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔  

آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے اس پولیانا سنڈروم سے باہر آئیں۔ اپنی آنکھیں کھولیں، دنیا کو دیکھیں اور سمجھیں۔ جس دن آپ اپنے پسندیدہ سیاسی لیڈر کو تنقیدی نگاہ سے دیکھنے کی اہلیت حاصل کر لیں، جس دن آپ صحیح اور غلط میں تمیز کرنے، سچ اور جھوٹ کا فرق جاننے کے قابل ہو جائیں تو سمجھیں کہ آپ نے حقیقی معنوں میں آزادی حاصل کر لی ہے۔ اس دن آپ کو اپنے حقوق سمجھ آنا شروع ہوں گے ورنہ آپ ایک پلیٹ بریانی پر اور ایک گلی پختہ ہونے پر بھی اپنا ووٹ بیچنے پر تیار ہوتے رہیں گے۔