کیا یمن میں جنگ تیل کے آخری قطرے تک جاری رہے گی؟
30 ستمبر 2020یمن میں حوثی باغیوں کا تنازعہ 2004ء میں مسلح جھگڑے کی شکل اختیار کر گیا تھا۔ ستمبر 2014ء میں دارالحکومت صنعاء پر حوثی باغیوں کے قبضے کے بعد اس تنازعے کی اصل شکل سامنے آنے شروع ہوئی، جس کا تعلق خطے کی بڑی طاقتوں سے ہے۔ یمن کے کچھ علاقے 2011ء ہی سے ایران نواز حوثی باغیوں کے ہاتھوں میں ہیں۔ 2015ء میں سعودی بادشاہت کی طرف سے تیل سے مالا مال اس ملک میں سیاسی اور عسکری مداخلت نے یمن کی خانہ جنگی کو ایک وسیع تر اور انتہائی خطرناک جنگ میں تبدیل کر دیا۔ اس کی نوعیت اب بین الاقوامی تنازعے کی سی ہو چکی ہے کیونکہ سعودی عرب نے یمن میں بر سر پیکار اپنے فوجیوں کو کمر بستہ کرنے کے لیے اتحادی قوتوں کا سہارا لیا۔ یمن میں سعودی قیادت والے فوجی اتحاد میں 2017 ء تک مصر، بحرین اور قطر کے فوجی شامل تھے اور 2019ء تک کویت، متحدہ عرب امارات، اردن اور مراکش نے بھی اپنی شمولیت جاری رکھی۔ مئی 2015ء میں سینیگال بھی اس میں شامل ہو گیا۔ ان تمام ممالک پر مشتمل سعودی قیادت والے عسکری اتحاد کو امریکا، فرانس اور برطانیہ کی مکمل 'لاجسٹک سپورٹ‘ حاصل ہے۔
جنگ کا رُخ شہر ماریب کی طرف کیوں؟
یمن کی جنگ میں کتنے انسان لقمہ اجل بنے اور کتنے نارمل زندگی سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو چکے ہیں، کتنے بچے بھوک کا شکار ہیں اور کتنے یتیم ہو کر اپنے تاریک مستقبل کے ساتھ سمجھوتے پر مجبور ہوئے ہیں، ان سب کا حساب کتاب بین الاقوامی ایجنسیوں کی طرف سے آئے دن سامنے آنے والے اعداد و شمار سے کسی حد تک تو ہو سکتا ہے مگر مکمل تصویر کبھی بھی سامنے نہیں آ سکتی۔ اس بارے میں اب کوئی بات بھی نہیں کرنا چاہتا۔ صنعاء کی تباہی کے بعد وہاں کے مقامی لوگوں نے نسبتاً کم تباہی والے شہر ماریب کا رخ کرنا شروع کیا تھا کیونکہ سن 2020 کے اوائل تک ماریب بدترین تباہیوں سے بچا ہوا تھا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ تیل اور گیس کے بھرپور ذخائر سے مالا مال، اسٹریٹیجک اہمیت کا حامل یہ شہر علاقائی طاقت سعودی عرب کے ساتھ سرحد کے قریب واقع ہے۔ یہ شہر یمن کی جنگ کے ابتدائی پانچ سالوں کے دوران ملکی باشندوں کے لیے ایک طرح سے پناہ گاہ بنا ہوا تھا تاہم پھر ماریب کا استحکام بھی جاتا رہا۔ اب حوثی باغیوں اور سعودی اتحاد کے مابین ماریب کو اپنی گرفت میں لینے اور اس پر کنٹرول حاصل کرنے کی جو جنگ شروع ہو چکی ہے، اس کی لپیٹ میں اب یہاں کے مقامی رہائشی اور یمن کے دیگر علاقوں سے ماریب آ کر پناہ لینے والے افراد بھی ہیں۔ رواں سال مئی سے لے کر جولائی تک سعودی اتحاد کی طرف سے صنعاء پر کیے گئے حملوں اور حوثی باغیوں کی طرف سے ماریب کو حملوں کا نشانہ بنانے کے نتیجے میں درجنوں جانیں ضائع ہوئیں۔
ماریب کی طرف ہجرت کرنے والے
صنعاء اور دیگر علاقوں سے فرار ہو کر ماریب آنے والوں میں زیادہ تر پڑھے لکھے طبقے سے تعلق رکھنے والے یا تجارت پیشہ لوگ تھے۔ ان میں زیادہ تر ڈاکٹرز اور بزنس مین تھے جن کے ماریب آ کر آباد ہونے کے سبب وہاں پراپرٹی کی قیمتیں ایک دم آسمان سے باتیں کرنے لگیں۔ بزنس پھلنے پھولنے لگا کیونکہ ماریب میں ریستوراں کھل گئے تھے اور مختلف تعمیراتی منصوبوں پر کام بھی شروع ہو گیا تھا۔ لیکن حوثی باغیوں اور سعودی اتحادی فورسز کی طرف سے اس علاقے میں شروع کردہ جھڑپوں سے ماریب پھر سے غیر مستحکم ہونا شروع ہو گیا۔
'صنعاء سینٹر آف اسٹریٹیجک اسٹیڈیز‘ سے تعلق رکھنے والے ایک ماہر ماجد المدحاجی کہتے ہیں، ''یہ تنازعہ جھڑپوں کی تعداد کے اعتبار سے یمن کی جنگ میں لڑائیوں کی بلند ترین شرح ہے۔‘‘ ان کا کہنا ہے، ''اب جو کچھ ہو رہا ہے، یہ اشتعال اور انتشار کی جنگ ہے۔‘‘ اس جنگ زدہ ملک کے دیگر حصوں کی طرح، جہاں دسیوں ہزار افراد ہلاک اور تقریباً 3.33 ملین بے گھر ہوئے ہیں، یہ عام شہری ہیں جو سب سے زیادہ قیمت ادا کرتے آئے ہیں۔ اگر ماریب پر کسی کا قبضہ ہو جاتا ہے تو یہ ایک ایسے وقت پر ہو گا، جب اقوام متحدہ یمن میں اپنے پروگراموں کو ختم کرنے پر مجبور ہو گا کیونکہ کورونا وائرس کے سبب ڈونر ممالک کو جو نقصان پہنچا ہے، وہ وجہ بن چکی ہے ان کی طرف سے یو این کو دی جانے والی مالی امداد میں سست روی کی۔
یمن کے لیے اقوام متحدہ کے 'ہیومینیٹیرین کوآرڈینیٹر‘ لیز گرانڈ نے کہا، ''اگر بدترین واقعات رونما ہوئے اور شہری فرار ہونے پر مجبور ہو جاتے ہیں، تو ہم ان کی مدد کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے لیکن یہ ایک جدوجہد ہو گی۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ''ہمارے پاس زمین عملاﹰ اتنی گنجائش نہیں ہے اور کافی امدادی رقوم بھی نہیں ہیں۔‘‘
اندرون ماریب بے دخل افراد
ماریب میں داخلی طور پر بے گھر ہونے والوں کی تعداد واضح نہیں ہے۔ میزبان برادریوں اور رشتہ داروں کے ساتھ رہنے والے لوگوں کی گنتی کرنا مشکل ہے، اور کچھ افراد تو صحرائی علاقوں کی طرف بھی فرار ہو گئے ہیں۔ ماریب میں اس وقت 140 کیمپ چل رہے ہیں۔ کچھ ذرائع نے بے گھر ہونے والوں کی تعداد 10 لاکھ بتائی ہے۔ تازہ ترین پریشان کن صورتحال سے پہلے اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق وہاں تقریبا ساڑھے سات لاکھ افراد بے گھر ہوئے تھے۔
بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت کی ترجمان اولیویا ہیڈن نے اے ایف پی کو بتایا، ''پچھلے مہینے تقریباً 80 فیصد نئے آنے والوں کو پہلے ہی سے بے گھر ہونے والے افراد کے انتہائی پُرہجوم کیمپوں میں آباد ہونا پڑا۔ یہ انتہائی تشویش ناک بات ہے کیونکہ حفظان صحت کے ضوابط پر عمل اور سماجی اور جسمانی فاصلے رکھنا ہی دراصل کووڈ انیس کی وبا سے لڑائی میں کلیدی اہمیت کی بات ہے۔‘‘
ایک یمنی شہری ہادی کے بیٹے نے شادی کرلی ہے اور جلد ہی اس کے ہاں بچے کی پیدائش ہونے والی ہے۔ اس جوڑے کو ماریب کے اس کیمپ میں ہی اپنے نو زائیدہ بچے کے ساتھ رہنا ہو گا۔ ہادی کے مطابق، ''میں خدا پر کامل بھروسہ رکھتے اور اس صورتحال سے سمجھوتہ کرتے ہوئے تیزی سے اس مشکل وقت کو کاٹنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ لیکن میری بیوی اور بچے کا حوصلہ کم ہے۔ وہ زندگی سے تھک چکے ہیں۔ اگر ہمیں پھر فرار ہونا پڑا، تو یہ واقعی ایک بڑی تباہی ہو گی۔ ہم کہاں جائیں گے؟‘‘
کشور مصطفیٰ (م م)