کیا یورپی یونین میں آزادانہ سفر کا دور ختم ہو چکا؟
3 جنوری 2017عام طور پر جب لوگ یورپی یونین کے کسی ایک سے دوسرے ملک میں سفر کیا کرتے ہیں تو اکثر انہیں یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ دو ممالک کو جدا کرنے والی بین الاقوامی سرحد پار کر چکے ہیں۔ وہ آزادی کے ساتھ یورہی یونین کے ویزہ فری سفر کے شینگن معاہدے میں شامل چھبیس ممالک میں سے کسی بھی ملک میں آ جا سکتے ہیں۔
برسلز میں یورپی یونین کے داخلی امور سے متعلقہ کمشنر دیمتریس اوراموپولس یورپی باشندوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہتے ہیں:’’بس، ٹرین یا کار پر ایک جست لگا کر سوار ہونے کی دیر ہے اور آپ اپنے پڑوسی ممالک کی سیر کر سکتے ہیں۔ اوراس سب کے لیے سرحدی کنٹرول کے بارے میں ایک سیکنڈ کے لیے بھی سوچنے کی ضرورت نہیں۔‘‘
تاہم وقت کے ساتھ سا تھ اب جرمنی سمیت چھ یورپی ریاستوں نے اگر مکمل طور پر نہیں تو کم سے کم جزوی طور پر اپنی ملکی سرحدوں پر کنٹرول کا آغاز کر دیا ہے۔ فرانس کا کہنا ہے کہ بارڈر کنٹرول دہشت گردی کے حوالے سے سلامتی کے خدشات کے تناظر میں ضروری ہے تاہم دیگر ممالک اسے مہاجرین کی آمد کے تناظر میں نا گزیر قرار دیتے ہیں۔
یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا شمالی یورپ میں مہاجرین کا بحران کم و بیش ختم نہیں ہو گیا؟ اس سوال کا جواب یورپی یونین کے پاس موجود ہے اور وہ یہ کہ اگر سرحدوں پر کنٹرول کو سخت نہ بنایا گیا تو تارکینِ وطن کی یونان سے باقی یورپ کی جانب آمد کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہو سکتا ہے۔
ڈنمارک کی سرحد کے قریب واقع جرمنی کے شہر فلینز برگ کی یوروپا یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی مونیکا آئگ مولر کا کہنا ہے، ’’یہ ایک علامتی پالیسی ہے۔ سرحدوں پر ابھی جامع کنٹرول نافذ نہیں کیا گیا تاہم اسے حکومت کی جانب سے ایک پیغام سمجھا جائے کہ ہم نے اپنی خود مختاری کو مکمل طور پر ترک نہیں کیا ہے۔‘‘
اُدھر بیلجیم نے بین الاقوامی سفر کرنے والے مسافروں کے حوالے سے معلومات جمع کرنے کا آغاز کر دیا ہے۔ اس انفارمیشن ڈیٹا میں فضائی سفر کرنے والوں کے علاوہ بس، ٹرین اور بحری جہاز پر آنے جانے والوں کے بارے میں معلومات بھی محفوظ کی جائیں گی۔ برسلز حکومت کو امید ہے کہ اس سے دہشت گردانہ کارروائیوں کے سدِ باب میں مدد ملے گی۔
بلقان کی جو ریاستیں یورپی یونین کا حصہ نہیں ہیں، اُن کے شہریوں کو فی الحال یورپی یونین میں داخلے کے لیے کسی ویزے کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن مستقبل میں ایسا ہو سکتا ہے۔ اور تو اور یورپی یونین کے شہریوں کو بھی مستقبل میں یورپی یونین سے باہر جاتے وقت یا واپسی پر بارڈر کنٹرول سے گزرنا پڑ سکتا ہے۔