کیا یورپی یونین چین سے 'رشتے بدلنے' پر غور کر رہی ہے؟
23 مارچ 2023لیتھوانیا کے وزیر خارجہ گیبریلیئس لینڈسبرگس سے جب یہ سوال پوچھا گیا کہ چینی صدر کے دورہ ماسکو اور پوٹن سے ان کی ملاقات کے بارے میں ان کا کیا خیال ہے، تو انہوں نے کہا: اگر شی جن پنگ کسی جنگی مجرم سے دوستی کرنے کا انتخاب کرتے ہیں، تو ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم چین کے بارے میں بھی بہت سنجیدہ ہو جائیں۔''
’چینی صدر نیا عالمی نظام قائم کرنا چاہتے ہیں‘
گزشتہ ہفتے ہی بین الاقوامی فوجداری عدالت نے روس کے صدر پوٹن پر جنگی جرائم کا الزام لگاتے ہوئے ان کے خلاف وارنٹ جاری کیا تھا۔
پوٹن، شی ملاقات: روس اور چین تعلقات کے'نئے دور' کا آغاز
لینڈسبرگس نے کہا کہ یورپی یونین کے لیے اب آگے بڑھنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ ''چین سے خطرے کو ختم کرنے کے لیے کوئی پہلا قدم اٹھانے کی ضرورت ہے پھر بالآخر تعلقات توڑنے کے لیے اقدام ہونے چاہیں۔ ہم جتنی جلدی یہ شروع کریں گے، یونین کے لیے اتنا ہی بہتر ہے۔''
شی جن پنگ سربراہی اجلاس کے لیے ماسکو میں
لیکن برسلز میں ہر کوئی اس بات کا قائل نہیں ہے کہ ایسی کسی سخت کارروائی کی ضرورت ہے۔ یورپی یونین کے حکام نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت میں اس جانب اشارہ کیا کہ حالیہ برسوں میں شی جن پنگ اور پوٹن کے درمیان میں 40 سے زائد مرتبہ ملاقات ہوئی ہے۔
چین نے روس کو ہتھیار دیے تو 'نتائج‘ نکلیں گے، جرمن چانسلر
ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان اتحاد کا اس طرح کا مظاہرہ ''توقع'' کے مطابق ہے۔ عام تصور یہ ہے کہ چین روس کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا رہا ہے۔
چین اور بیلاروس کا یوکرین میں 'جلد از جلد' امن کا مطالبہ
چین بھارت سمیت دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے، جس نے یوکرین میں روسی حملے کی مذمت نہیں کی ہے۔ چین روسی تیل اور گیس کی خریداری جاری رکھے ہوئے ہے اور مغربی ممالک میں اس کے اس رویے پر کافی تنقید بھی ہوتی رہی ہے۔
یورپی یونین اور چین کے تعلقات پہلے سے کشیدہ ہیں اور چینی صدر شی جن پنگ کے اس بیان نے کہ، روس اور چین کے تعلقات لا محدود ہیں، اس کو مزید نقصان پہنچایا ہے۔
گرچہ بعض مغربی اتحادیوں کو خدشہ ہے کہ چین روس کو ہتھیار فراہم کرنے پر غور کر رہا ہے، تاہم نیٹو کے سیکرٹری جنرل جینز اسٹولٹن برگ نے اسی ہفتے برسلز میں کہا تھا کہ انھوں نے اس بات کا کوئی ثبوت نہیں دیکھا ہے کہ چین روس کو مہلک امداد فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔
تاہم چونکہ چین اور روس کے درمیان اقتصادی تعاون اپنے عروج پر ہے، بیجنگ بالواسطہ طریقوں سے روس کی جنگی کوششوں کی حمایت بھی کرتا ہے۔ اس کے باوجود یورپی یونین کو احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے۔
چین نے کووڈ انیس سے متعلق برداشت کی اپنی صفر پالیسی ختم کر دی ہے اور اپنی معیشت کو دوبارہ کھول رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہی وجہ ہے کہ یورپی یونین کو بہت غور و فکر سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ ''البتہ یہ معاشی استحکام نازک ہے اور تناؤ سے بھی پر ہے۔''
ماہرین کے مطابق دنیا اس وقت سپلائی چین اور افراتفری کی شکار ہے اور یورپی یونین بھی مزید معاشی عدم استحکام کا سامنا نہیں کرنا چاہتی۔ یہ ایک طرح سے ''مزید پریشانیوں کے ذرائع کو کھولنے کے مترادف ہو گا۔''
امریکہ کا چین کے خلاف اتحاد قائم کرنے پر زور
تجزیہ کاروں کے مطابق یہ بھی ایک اہم وجہ ہے کہ برسلز چین پر قابو پانے کے لیے امریکی اقدامات میں شامل ہونے سے گریزاں ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ یورپی یونین اور اس کے ارکان کو چین کا مقابلہ کرنے کے لیے مل کر کام کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ تاہم یہ کوششیں صرف جزوی طور پر کامیاب ہوئی ہیں۔
مارچ میں صرف نیدرلینڈز نے چین کو جدید مائیکرو چِپ ٹیکنالوجی کی فروخت پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور پھر بعد میں جرمنی نے بھی چینی کمپنی ہواوے کے موبائل فون نیٹ ورکس کے اہم اجزاء پر حفاظتی جائزے کا اعلان کیا۔
تاہم یورپی یونین کے بیشتر ممالک منافع بخش چینی مارکیٹ سے الگ ہونے میں ہچکچاتے ہیں۔ اس میں سب سے پہلے اور سب سے اہم جرمنی ہے، جو چین کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔
یورپی کمیشن کی صدر ارزولا فان ڈیئر لائن جنوری میں داؤس کے ورلڈ اکنامک فورم میں کہا تھا کہ یورپی یونین چین سے ''تعلقات توڑنا'' نہیں بلکہ ''ڈی رسک'' یعنی خطرات سے پاک کرنا چاہتی ہے۔ یہ بیان چین سے یورپی یونین کا منہ موڑنے میں ہچکچاہٹ کو اجاگر کرتا ہے۔
چین سے دوستی کے اثرات
فی الوقت ایسا لگتا نہیں ہے کہ یورپی یونین چین کے ساتھ تعلقات پر از سر نو غور و فکر کرنے کے حق میں ہے۔ ذرائع نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یورپی یونین کے رکن ممالک جب تک مختلف عہدوں پر فائز ہیں تب تک ان میں سے کچھ تجارتی تعلقات کو جاری رکھنے پر توجہ دینے کے حق میں ہیں، جب کہ کچھ چین کے بارے میں امریکی پالیسی کے ساتھ مزید ہم آہنگ ہونے کو بھی تیار ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ چین 23-24 مارچ کو ہونے والے یورپی یونین کے سربراہی اجلاس کے ایجنڈے میں بھی نہیں ہے، کم از کم سرکاری طور پر نہیں۔
مبصرین کے مطابق ''چینی دو متضاد اہداف کو متوازن کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پوٹن کے ساتھ بہترین دوست ہونے اور ساتھ ہی یورپیئن کے ساتھ اچھی دوستی کی کوشش۔''
ص ز/ ج ا (الیگزینڈر فان نیہمن)