کیری لوگر بِل: محمود قریشی پھر واشنگٹن میں
13 اکتوبر 2009شاہ محمود قریشی کا امریکہ کا یہ ہنگامی دورہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلام آباد حکومت کیری لوگر بل کے بارے میں ملک کے مختلف حلقوں میں پائے جانے والے تحفظات کو سنجیدگی سے دیکھ رہی ہے۔
وزیر خارجہ نے پیر کو امریکہ روانگی سے قبل صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ انہیں پاکستان کی فوجی اور سول قیادت کا بھرپور تعاون حاصل ہے اور وہ مکمل اعتماد کے ساتھ امریکی حکام سے کیری لوگر بل پر مذاکرات کریں گے۔ شاو محمود قریشی نے اپنی گفتگو میں اس امر پر خاص زور دیا کہ یہ معاملہ پاکستان کے لئے اس لئے بھی غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے کہ اس وقت بیرونی دنیا سے تعلقات استوار کرنا پاکستان کے مفاد میں ہے۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ وہ امریکی صدر باراک اوباما کو کیری لوگربل پر دستخط کرنے سے روکنا نہیں چاہتے بلکہ اوباما پر اس بارے میں پاکستان میں پائے جانے والے تحفظات اور اسلام آباد کا موقف واضح کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستانی وزیر خارجہ نے یقین دلایا ہے کہ ملکی وقار اور خود مختاری پر کوئی سودہ نہیں کیا جائے گا۔
تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ عالمی مالیاتی بحران کے اس دور میں ساڑھے سات ارب ڈالر کی امداد کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، جس کی پیشکش امریکہ نے کیری لوگر بل کے ذریعے پاکستان کو کی ہے۔ وزیر خارجہ نے یقین دلایا ہے کہ امریکہ کو پاکستان کے نجی معاملات میں مداخلت کی اجازت نہیں دی جائے گی اور ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکہ اس قسم کی مداخلت کی خواہش بھی نہیں رکھتا۔
صحافیوں کی جانب سے وزیر خارجہ سے امریکہ میں متعین پاکستانی سفیر حسین حقانی کو وطن واپس بلائے جانے کے بارے میں گردش کرنے والی خبروں کے بارے میں سوال کیا گیا۔ شاہ محمود قریشی نے اسکا کوئی واضح جواب دینے سے انکار کیا، تاہم انہوں نے اس خبر کو افواہ اور قیاس آرائی قرار دیا ۔
شاہ محمود قریشی ابھی دو روز قبل ہی واشنگٹن سے واپس اسلام آباد آئے تھے اور انہوں نے کیری لوگر بل کے بارے میں پارلیمان میں جاری بحث میں حصہ بھی لیا تھا۔ اس موقع پر وزیر خارجہ نے ایک بیان میں یقین دلایا تھا کہ پارلیمان کی خود مختاری کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے امریکی امداد سے متعلق اس متنازعہ بل کے بارے میں اس کے فیصلے کا حکومت احترام کرے گی۔
رپورٹ: کشور مصفطیٰ
ادارت: ندیم گِل