کیلاش ستیارتھی، ’بچپن بچاؤ آندولن‘ کے روح رواں
10 اکتوبر 2014اُن کی اس تنظیم نے اب تک 80 ہزار بچوں کی زندگی کو نئی روشنی دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ نوبل امن انعام کے لیے منتخب ہونے کے بعد نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے کیلاش ستیارتھی نے کہا کہ ’یہ اعزاز نہ صرف بھارت کے سوا سو کروڑ شہریوں کے لیے ہے بلکہ یہ دنیا بھر کے ان تمام بچوں کی بھی جیت ہے، جو اپنی زندگی بدلنے کے لیے سخت جدوجہد کررہے ہیں‘۔
انہوں نے کہا:’’یہ ان تمام بچوں کے لیے وقار کی بات ہے، جو ٹیکنالوجی اور معیشت کی اتنی ترقی کے باوجود غلامی کی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔ میں اس جدید دور میں اذیت سے گذرنے والے لاکھوں بچوں کی بدحالی کو دور کرنے کے کام کو تسلیم کرنے کے لیے نوبل کمیٹی کا مشکور ہوں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ وہ ملالہ کے ساتھ مل کر بچہ مزدوری سے لڑنا چاہتے ہیں۔
پیشے کے اعتبار سے الیکٹرک انجینئر کیلاش ستیارتھی گیارہ جنوری 1954ء کو بھارت کے وسطی ریاست مدھیہ پردیش میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے 26 برس کی عمر میں ہی کیریئر چھوڑ کر بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنا شروع کر دیا تھا۔ بچہ مزدوری کے خلاف مہم چلا کر ہزاروں بچوں کی زندگیاں بچانے کا سہرا اُن کے سر جاتا ہے۔ وہ آج کل ’گلوبل مارچ اگینسٹ چائلڈ لیبر‘ کے صدر بھی ہیں۔
بچوں کو بچانے کے دوران اُن پر کئی جان لیوا حملے بھی ہوئے۔ گیارہ مارچ 2011ء کو دہلی کی ایک گارمینٹ فیکٹری پر چھاپے کے دوران ان پر حملہ کیا گیا۔ اس سے قبل 2004ء میں گریٹ رومن سرکس کے بچہ فن کاروں کو آزاد کرانے کے دوران بھی ان پر حملہ ہوا تھا۔
کیلاش ستیارتھی کو ان کی خدمات کے لیے اب تک متعدد قومی اور بین الاقوامی اعزازات سے نوازا جا چکا ہے۔ ان میں 1994ء میں جرمنی کا دی ایکینئر انٹرنیشنل پیس ایوارڈ اور 1999ء میں جرمنی کا ہی فریڈرش ایبرٹ فاؤنڈیشن ایوارڈ شامل ہیں۔ نوبل کمیٹی کے مطابق کیلاش ستیارتھی کو یہ ایوارڈ تمام بچوں کے لیے تعلیم اور بچوں اور نوجوانوں کے استحصال کے خلاف ان کی جدوجہد کے لیے دیا جا رہا ہے۔