کیلاشی باشندے حکومت کی توجہ کے منتظر
19 مئی 2015وادی کیلاش کے مقامی باشندے آج بھی تعلیم صحت اور دیگر بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ اب ان کا مطالبہ ہے کہ انہیں قومی اور صوبائی اسمبلی سمیت سینیٹ میں بھی نمائندگی دی جائے تاکہ ان کے لوگ منتخب قانون ساز اداروں تک پہنچیں اور ان کے جائز حق کے لیے آواز اُٹھائیں۔ اس علاقے کے تعلیم یافتہ نوجوان زرین خان کیلاشی نے کہا کہ ’’خیبر پختونخوا میں ہندو، سکھ اور مسیحیوں کو پارلیمنٹ میں نمائندگی دی جاتی ہے۔ ان میں بعض کی تعداد ہم سے کم ہے۔ پہلے تو ہمارے لوگ ڈرتے تھے اور اپنے علاقے سے باہر نہیں نکلتے لیکن اب تو ایسا نہیں ہے۔‘‘ ان کے بقول ان کے علاقے میں جو بھی ترقیاتی کام ہوتا ہے وہ غیر سرکاری تنظیمں کرتی ہیں۔’’صوبائی اور وفاقی حکومت ہمارے لوگوں کے لیے کچھ نہیں کرتی صرف خیبر پختونخوا کا ٹوارزم ڈیپارٹمنٹ بعض تقریبات کے لیے تعاون کرتا ہے‘‘۔
کیلاش کی آبادی چترال کے تین علاقوں بمبوریت، بربر اور رامبور میں آباد ہے۔ یہ علاقے چترال سے تقریباً پینتیس کلومیٹر کے فاصلے پر افغان سرحد کے قریب واقع ہیں۔ اس علاقے کو عام لوگ کافرستان کہتے ہیں اور یہاں کے باشندوں کو کافر کہا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ اس طرح کا ایک قبیلہ افغانستان میں بھی تھا اور اُس علاقے کا نام بھی کافرستان تھا جسے بعد میں تبدیل کر کے نورستان کر دیا گیا تھا۔
کچھ عرصہ قبل تک افغانستان سے طالبان سرحد عبور کر کے کیلاش کے علاقے میں داخل ہوتے تھے اور کیلاشیوں کو مسلمان ہونے کا کہتے تھے۔ ان اطلاعات کے بعد پاک فوج نے ان سرحدی علاقوں میں حفاظتی چوکیاں قائم کر دی ہیں۔ کیلاش کے باشندوں کی تہذیب دو ہزار سال سے بھی پرانی بتائی جاتی ہے ایک روایت یہ بھی کہ تین سو ستائیس قبل مسیح میں یونان کا سکندر اعظم اس وادی سے گزرا تھا تو اس کے کچھ لوگ اس علاقے میں رہ گئے تھے اور کیلاشی اُنہی کی اولاد ہے۔
کیلاش کے لوگوں کا عقیدہ ہے کہ اگرانہوں نے اپنا لباس اور رہن سہن تبدیل کیا تو دیوتا کی جانب سے ان پر عذاب آ سکتا ہے۔ یہ لوگ خاندان کے کسی فرد کی موت پر غمزدہ ہونے کی بجائے اس کی لعش درمیان میں رکھ کر اُس کے گرد رقص کرتے ہیں۔ پہلے یہ لوگ تابوت میں اپنے مردے کواس کے سامان سمیت کھلے آسمان تلے مخصوص جگہ پر رکھ دیتے تھے لیکن اب ایسا نہیں کیا جاتا۔
کیلاش کے یہ قدیم باشندے سال میں تین بار مختلف ناموں سے جشن مناتے ہیں جسے دیکھنے کے لیے دنیا بھر سے سیاح ان علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔ اِن میں چلم چوست مئی میں موسم بہار کی آمد پر، اچل جولائی میں گندم اور جو کی فصلوں کی کٹائی کے موقع پر اور دسمبر میں چاو ماوس سال کا سب سے بڑا میلہ ہوتا ہے، جو نئے سال کی خوشی میں ایک ہفتے تک جاری رہتا ہے۔
دشوار گزار پہاڑوں میں واقع یہ علاقے تمام تر بنیادی سہولتوں سے محروم ہے، جب اس سلسلے میں چترال سے منتخب رکن پختونخوا اسمبلی سلیم خان سے بات کی تو انہوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا ’’ان لوگوں کو زبردستی اسلام قبول کرنے کے لیے کسی بھی دباؤ کا سامنا نہیں ہے، جب افغانستان سے ایسی کوشیش کی گئیں تو فوج نے اس سلسلے کو روکا۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ صوبائی حکومت نے اقلیتوں کے لیے مناسب بجٹ مختص نہیں کیا اور اس میں بھی کیلاش کے لیے کوئی رقم نہیں رکھی گئی۔’’کیلاش کے لوگوں کے لیے ان کا تعلیمی نصاب بھی نہیں ہے۔ کئی غیر ملکی ادارے ان کی تعلیم اور صحت کے لیے کام کرتے ہیں جو نہ ہونے کے برابر ہے۔‘‘ سلیم خان کے بقول ان لوگوں کو اگر قومی میں نہیں تو کم از کم صوبائی اسمبلی میں نمائندگی دی جانے چاہیے تاکہ ان کے لوگ اپنے مسائل اجاگر کر سکیں‘‘۔
کیلاش وادی میں غیر ملکی امدادی اور فلاحی اداروں نے ثقافتی ورثے کو محفوظ بنانے کے لیے ایک میوزیئم بھی بنایا ہے جبکہ حکومت کی جانب سے اس علاقے میں بنیادی سہولیات کی فراہمی میں کوئی دلچسپی نہیں لی جا رہی۔ کیلاشی اپنے عقیدے کے پکے اور روایات سے محبت کرنے والے لوگ ہیں جو پاکستان کے اس دور دراز علاقے میں پُرامن طور پر رہائش پذیر ہیں۔
اقلیتوں کے لیے آواز اٹھانے والے آل پاکستان ہندو رائٹس موومنٹ کے چیئرمین ہارون سرب دیال نے ڈوئچے ویلے کو بتایا ’’کیلاش پاکستان کا قدیم ترین قبیلہ ہے یہ لوگ حکومتی توجہ کے حقدار ہیں ورنہ دوسروں کی طرح یہ ثقافت بھی ناپید ہوجائے گی۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ بہت ساری غیر سرکاری تنظیمیں کیلاش کے نام پر عالمی اداروں سے فنڈز لیتے ہیں لیکن اسے کیلاشیوں کی فلاح کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا۔ دیال کے بقول حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان پر چیک رکھے۔ وہ کہتے ہیں کہ خیبر پختونخوا میں اقلیتوں کے نامزد ارکان اسمبلی یا وزیر کسی ایک علاقے تک محدود ہوتا ہے اور دوسری کمیونٹی کو کوئی توجہ نہیں دیتا اس لیے وقت کا تقاضہ ہے کہ کیلاشیوں کو صوبائی اسمبلی میں نمائندگی دی جائے۔ دیال مزید کہتے ہیں کہ کیلاش کے باشندوں نے اپنی دو ہزارسال سے زیادہ پرانی تہذیب کوزندہ رکھا ہوا ہے اور یہ لوگ اپنی شناخت پرکوئی سمجھوتہ بھی نہیں کرتے تاہم بنیادی سہولیات اِن کا حق ہے اور حکومت کا اّولین فرض ہے۔