کینیا میں تشدد کی تازہ لہر میں بائیس ہلاک
18 جنوری 2008کینیا کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت‘ Orange Democratic Movementکی سرپرستی میں دیگر جماعتیں بھی‘ صدر موائی کیباکی کی انتخابی جیت کے خلاف احتجاجی مظاہرے کررہے ہیں۔ODMکے راہنما RAILA ODINGA نے تین روزہ ملک گیر احتجاج کی کال دی تھی۔آج احتجاجی مظاہروں کا تیسرا اور آخری دن تھا۔
حکومت نے تمام احتجاجی ریلیوں پر پابندی عائد کررکھی ہے تاہم اس کے باوجود‘ اپوزیشن کے حامی‘ آج مسلسل تیسرے روز بھی دارالحکومت میں بڑی ریلی نکالنے کا منصوبہ بنا چکے تھے۔حکومت نے ریلیو ں کو روکنے کے لیے سیکورٹی کے سخت انتظامات کر رکھے تھے۔
کینیا کی سول سوسائٹی کے تقریباً تیس گروپوں نے گُذشتہ ماہ کے صدارتی انتخابی نتائج پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے‘ ووٹوں کی دوبارہ گنتی کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔ان گروپوں کا کہنا ہے کہ وہ اس سلسلے میں عدالت کا رُخ کرنے کے لیے بھی تیار ہیں۔
کل جمعرات کو یورپی پارلیمان نے بھی کینیا میں دوبارہ صدارتی انتخابات منعقد کرانے یا کم از کم ووٹوں کی دوبارہ گنتی کرانے پر زور دیا تھا۔
الیکشن کے بعد ہونے والے فسادات میں اب تک کم از کم سات سو افراد ہلاک اور ڈھائی لاکھ لوگ ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔
دوسری جانب‘ کینیا کی پولیس نے تین غیر ملکیوں کو دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہونے کے شبہ میں نیروبی کے فضائی اڈے پر گرفتار کرلیا ہے۔ان میں سے دو کا تعلق جرمنی اور ایک کا ہالینڈ سے بتایا گیا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ گرفتار کئے جانے والے تینوں افراد نے خود کو صحافی جتلایا تھا۔پولیس کے ایک ترجمان نے کہا کہ ان تینوں نے نیروبی میں ایک ہی دن‘ بہت کم فاصلے والے سفر کے دوران تین گاڑیوں کو تبدیل کیا تھا۔پولیس نے ان کے کیمرا اور ریکارڈنگ آلات بھی ضبط کرلئے ہیں۔ان افراد کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ کینیا سے باہر جارہے تھے۔تینوں‘ گُذشتہ دسمبر کے صدارتی انتخابات سے قبل کینیا میں داخل ہوئے تھے۔پہلے یہ اطلاعات موصول ہوئیں تھیں کہ ان افراد کے روابط کینیا کے اپوزیشن راہنما RAILA ODINGAکے ساتھ ہیں۔