کینیا کا روبوٹک بیروں والا پہلا ریستوراں
کینیا کے دارالحکومت نیروبی میں واقع ’روبوٹ کیفے‘ اس ملک کا ایسا اولین ریستوراں ہے، جہاں انسان نما روبوٹس یا ہیومینوئڈز بیروں کا کام کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آیا مستقبل میں روبوٹس مکمل طور پر انسانوں کی جگہ لے لیں گے؟
’آپ کا آرڈر تیار ہے، خوش آمدید‘
کینیا کے دارالحکومت نیروبی میں واقع ’روبوٹ کیفے‘ میں بیروں کا کام کرتے تین انسان نما روبوٹ گاہکوں کی توجہ کا مرکز بنے رہتے ہیں۔ یہ مشرقی افریقہ کا شاید پہلا ایسا ریستوراں ہے، جس کے عملے میں انسانوں کے علاوہ روبوٹس بھی شامل ہیں۔
ایشیا سے کینیا تک
’روبوٹ کیفے‘ کے مالک محمد عباس کو اس طرز کی ’روبوٹک سروس‘ کا تجربہ ایشیائی اور یورپی ممالک میں ہوا تھا، جس کے بعد انہوں نے کینیا میں بھی ایسی ہی سروس متعارف کرانے کا فیصلہ کیا تھا۔ ایسا مستقبل بعید کے بجائے مستقبل قریب ہی میں متوقع ہے کہ اس ٹیکنالوجی کا ممکنہ طور پر چند صنعتوں میں کردار تو مسلسل اہم سے اہم تر ہوتا جائے گا۔
سرمایہ کاری رنگ لے آئی
اس کیفے کے مالک محمد عباس کا کہنا ہے کہ یہ روبوٹ درآمد کرنے کے لیے انہیں بڑی رقم ادا کرنا پڑی، مگر یہ بھاری سرمایہ کاری رنگ لے آئی۔ عباس کے بقول ان کے ریستوراں میں اب اکثر متجسس گاہکوں کا رش لگا رہتا ہے۔ کیفے میں کام کرنے والے ان روبوٹس کو ویٹرز آئی پیڈ میں انسٹال کی گئی ایک ایپ کے ذریعے کنٹرول کرتے ہیں۔
روبوٹ بمقابلہ انسان
ہوٹلنگ اور پیشہ وارانہ میزبانی کے شعبے کی ماہر ایڈتھ اوجوانگ کہتی ہیں کہ اس اقتصادی شعبے میں روبوٹس اور انسانوں کے لیے ایک ساتھ کام کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ ان کے مطابق، ’’ہمارے پاس ایسے گاہک بھی ہیں، جو روبوٹک سروس اور فل آٹومیشن کو ترجیح دیں گے۔ مگر کئی گاہک ایسے بھی ہیں، جو یہ پسند کریں گے کہ انہیں پیشہ وارانہ خدمات مہیا کرنے والے جیتے جاگتے انسان ہوں۔‘‘
مرد روبوٹ کہاں ہیں؟
نیروبی کے روبوٹ کیفے میں کام کرنے والے تین ہیومینوئڈ روبوٹس کے نام کلیئر، آر 24 اور نادیہ ہیں۔ مگر یہ روبوٹ ہر کام نہیں کر سکتے۔ بہت سے کاموں کے لیے اب بھی انہیں اپنے انسانی ساتھیوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ اگر آپ ان روبوٹک ویٹرز کی بناوٹ اور جسمانی ساخت پر غور کریں، تو دیکھنے میں یہ آپ کو روبوٹک خواتین لگیں گی۔ اس لیے کہ اس ریستوراں میں کام کرنے والے روبوٹک ویٹرز میں اب تک کوئی ’مرد‘ شامل نہیں ہے۔