کینیڈا: ایک اور سابقہ قبائلی اسکول میں اجتماعی قبریں دریافت
24 جون 2021مقامی میڈیا نے بدھ کے روز بتایا کہ کینیڈا میں ایک سابق بورڈنگ اسکول میں نامعلوم افراد کی قبریں دریافت ہوئی ہیں جن میں سینکڑوں قبائلی بچوں کی لاشیں دفن تھیں۔ گزشتہ ماہ ایسی ہی ایک اجتماعی قبر کے انکشاف نے پوری دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔
اس تازہ انکشا ف سے قبل گزشتہ ماہ برٹش کولمبیا صوبے میں بھی مقامی آبادی کے ایک سابق بورڈنگ اسکول سے 215 بچوں کی باقیات ملی تھیں۔ ان میں سے بعض بچے تین برس کے تھے۔
یہ قبریں کن لوگوں کی ہیں؟
کینیڈا میں قبائلی افراد کی نمائندگی کرنے والی تنظیمیں کاوسیسیز فرسٹ نیشن اور کینیڈا کے فیڈریشن آف ساورین انڈیجینس فرسٹ نیشن (ایف ایس آئی این)کے اراکین نے کہا کہ یہ قبریں ساسکچیوان صوبے میں سابق مارییویل انڈین ریزیڈینشیئل اسکول میں دریافت ہوئی ہیں۔
ایک بیان میں کہا گیا ہے،”جتنی بڑی تعداد میں نامعلوم قبریں دریافت ہوئی ہیں وہ کینیڈا میں آج تک کی تاریخ میں سب سے بڑی تعداد ہے۔"
ایف ایس آئی این کے رہنما بابی کیمرون اور کاوسیسیز کے سربراہ کاڈمس ڈیلورم نے کہا کہ وہ اس دریافت کے حوالے سے مزید تفصیلات بتانے کے لیے جمعرات کو ایک پریس کانفرنس کرنے جا رہے ہیں۔
یہ سابقہ بورڈنگ اسکول 1899سے 1997کے درمیان تک چل رہا تھا۔ یہ ساسکچیوان کے دارالحکومت ریگینا سے مشرق میں تقریباً 140 کلومیٹر دور وہا ں واقع ہے جہاں آج کل کاوسسیز آباد ہیں۔
فرسٹ نیشن نے 1970 میں اسکول کے قبرستان کا کنٹرول اپنے ہاتھوں میں لیا تھا۔ جس کے بعد سے وہ تمام سابقہ قبائلی رہائشی اسکولوں میں ممکنہ اجتماعی قبروں کا پتہ لگا رہی ہے۔
یہ مقامی یا قبائلی اسکول کیا تھے؟
کیملوپس اسکول، جہاں گزشتہ ماہ اجتماعی قبریں ملی تھیں، کی طرح ہی مارییویل اسکول بھی کیتھولک چرچ کی نگرانی میں چل رہا تھا۔ یہ مقامی آبادی کے اسکول کینیڈا کی پرتشدد تاریخ کا حصہ رہے ہیں جہاں بچوں کو ان بورڈنگ اسکولوں میں جبراً رکھا جاتا تھا۔
کینیڈا میں سن 1840ء سے لے کر سن 1996ء کے دوران حکومت اور مذہبی اداروں کی زیر نگرانی قائم بورڈنگ ہاؤس اسکولوں کی تعداد ایک سو سے زائد تھی۔ سارے کینیڈا میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد بچوں کو تعلیم دینے کے نام پر والدین سے جدا کیا گیا اور انہیں بورڈنگ ہاؤس اسکولوں میں منتقل کر دیا گیا۔ اس کا مقصد مقامی قدیمی آبادی کے بچوں اور آباد کاروں کے بچوں میں یورپی نو آبادیاتی کلچر کا فروغ تھا۔
ان بورڈنک اسکولوں میں تشدد اور جنسی زیادتیاں عام تھیں۔ اس دوران بچوں کو زبردستی مسیحی مذہب اپنانے پر مجبور کیا جاتا تھا۔
کینیڈا کی حکومت نے سن 2008 میں اس غیر انسانی سلوک کے لیے باضابطہ معافی بھی مانگی تھی۔
اُس دور میں بچوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک پر یونائیٹڈ، پریسبیٹیرین اور اینجلیکن چرچ بھی معذرت پیش کر چکے ہیں۔ تاہم ابھی تک کیتھولک چرچ نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔
ج ا/ ص ز (اے پی،ڈی پی اے، اے ایف پی)