کیوبا اور امریکا: ’سرد جنگ کی برف پگھل گئی‘
2 جولائی 2015سان پاؤلو یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر اولیور اسٹوئنکل کہتے ہیں، ’’اب لاطینی امریکا میں سرد جنگ اپنے حتمی انجام کو پہنچ گئی ہے۔‘‘ ان کے بقول کیوبا اور امریکا کے مابین نظر آنے والی قربت کا تعلق کمیونزم یا سرمایہ دارانہ نظام سے نہیں بلکہ یہ عملیت پسندی کی جیت ہے۔ ان دونوں ممالک کے مابین تعلقات استوار ہونے کا اثر امریکا اور برازیل کے روابط پر بھی پڑا ہے۔ اکتوبر 2013ء میں برازیل کی صدر دلما روسیف نے امریکی خفیہ ادارے این ایس اے کی جانب سے جاسوسی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے غصے میں اپنا دورہ امریکا منسوخ کر دیا تھا۔ تاہم ابھی پچھلے دنوں ہی روسیف نے امریکا کا ایک دورہ کیا اور واشنگٹن میں اپنے ہم منصب باراک اوباما سے ملاقات کی۔
لاطینی امریکی امور کے ماہر پروفیسر اسٹوئنکل کہتے ہیں کہ برازیل خطے میں انتہائی اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ گزشتہ برس وینزویلا میں حکام نے اعلان کیا تھا کہ چھ دسمبر کو پارلیمانی انتخابات نہیں کرائے جا سکیں گے۔ تاہم بعد میں برازیل کی طرف سے مداخلت کے بعد کراکس حکومت نے اپنا یہ فیصلہ واپس لے لیا تھا۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ اس دوران جب وینزویلا اپنی امریکا مخالف روش پر قائم ہے، کیوبا اور دیگر لاطینی امریکی ممالک نے عملیت پسندانہ رویہ اختیار کر رکھا ہے۔ مثال کے طور پر سلواڈور کے صدر سلواڈور سانچیز نے مئی 2014ء میں امریکی وزیر خارجہ جان کیری سے ملاقات کی۔ اس سے قبل سانچیز اپنے ملک سلواڈور میں1980ء سے لے کر 1992ء تک جاری رہنے والی خانہ جنگی میں ملک کی امریکا نواز فوجی حکومت کے خلاف لڑتے رہے تھے۔
امریکا اور کیوبا کے باہمی تعلقات کی بحالی کی کوششیں گزشتہ برس سے جاری ہیں۔ اس دوران اعلٰی امریکی اہلکار کیوبا کا دورہ بھی کر چکے ہیں۔ اس سلسلے میں اہم پیش رفت اپریل میں امریکی صدر باراک اوباما کی کیوبا کے صدر راؤل کاسترو کے ساتھ ملاقات تھی۔ اسی دوران اوباما نے کیوبا کو دہشت گردی میں تعاون کرنے والے ممالک کی امریکی فہرست سے نکال دینے کا اعلان بھی کر دیا تھا۔
اولیور اسٹوئنکل کہتے ہیں کہ حالات اتنی آسانی سے تبدیل نہ ہوتے، اگر چین اس خطے میں اپنی موجودگی میں اضافہ نہ کرتا۔ وہ کہتے ہیں کہ لاطینی امریکا کے کئی ممالک کا سب سے بڑا تجارتی ساتھی ملک امریکا نہیں بلکہ چین ہے۔ ہوانا اور واشنگٹن میں دونوں ملکوں کے سفارت خانے کھلنے کے بعد دوسرا بڑا چیلنج کیوبا پر عائد امریکی پابندیوں کا خاتمہ ہو گا۔