گائے کی تلاش میں مسلح ہندوؤں کی ’حکمرانی‘
11 نومبر 2015خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بھارتی ریاست راجستھان میں قریب ہر رات خود ساختہ ہندو ’خدائی فوجدار‘ مشتبہ مویشیوں کے اسمگلرز کی تلاش میں رہتے ہیں۔ ان کا مقصد ہندوؤں کی اکثریت کے لیے مقدس جانور سمجھے جانے والی گائے کا تحفظ ہوتا ہے، بھلے اس کے لیے انہیں لڑنا ہی کیوں نہ پڑے۔ ’گاؤ رکھشا دَل‘ کے ایک رہنما بابو لال جانگِر کے مطابق، ’’اسمگلرز اکثر فائرنگ کر دیتے ہیں یا ہمارے اوپر ٹرک چڑھانے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ مجھے موت کی دھمکیاں بھی مل چکی ہیں مگر میں ان کی پرواہ نہیں کرتا۔‘‘ بابو لال کے مطابق، ’’میرا دل صرف میرے پیاری گاؤ ماتا کے لیے دھڑکتا ہے۔‘‘
سرکاری طور پر خود کو سیکولر قرار دینے والے ملک بھارت میں راجستھان کے علاوہ کئی دیگر ایسی ریاستوں میں بھی گائے کو ذبح کرنا اور اس کا گوشت استعمال کرنا ممنوع ہے، جہاں مسلمانوں اور مسیحیوں کی اچھی خاصی تعداد آباد ہے۔ تاہم ہندو انتہا پسندوں کی طرف سے گائے کا گوشت کھانے یا گائے کی اسمگلنگ کا الزام عائد کرتے ہوئے تین مسلمانوں کے قتل کے واقعات کے بعد بھارت میں اقلیتوں کے خلاف تشدد میں اضافے کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔
ان ہلاکتوں کے بعد اس بات پر بھی بحث ومباحثہ شروع ہو گیا ہے کہ گزشتہ برس مئی میں ہندو قوم پرست نریندر مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد سے بھارت میں مذہبی عدم برداشت میں اضافہ ہوا ہے۔ مذہبی عدم برداشت اور بڑھتے ہوئے تشدد کے تناظر میں بھارت کے درجنوں مصنفین اور تخلیق کار حکومت کی طرف سے ملنے والے کئی اعلیٰ ترین اعزازات واپس کر چکے ہیں۔ دوسری طرف حکومت سے اس طرز عمل کے خلاف ایکشن کے مطالبات پر مبنی اجتماعی درخواستوں پر سائنسدان، ایکٹر اور فلمساز بھی دستخط کر رہے ہیں۔
بھارتی حکومت پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ ہندو انتہاپسندوں کے اقدامات روکنے میں ناکام ہے، الٹا اس کے بعض وزراء اس معاملے پر بحث کو کئی مرتبہ ہوا دے چکے ہیں۔ مودی کی سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (BJP) بہار میں ہونے والے ریاستی انتخابات میں بُری طرح ناکام ہوئی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اس کی ایک وجہ ووٹروں کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی کوشش بھی تھی۔
بے جے پی تشدد کی مذمت کرتی ہے اور مقامی میڈیا کی ایسی رپورٹس کو بھی مسترد کر چکی ہے کہ وہ ملک بھر میں گائے کو ذبح کیے جانے پر پابندی عائد کرنے والی ہے۔ بے جے پی کے ترجمان جی وی ایل نرسمہا نے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’کوئی بھی کسی قسم کے تشدد میں ملوث نہیں ہو سکتا۔ ہم ایسے گروپوں کو سپورٹ نہیں کرتے۔‘‘
تاہم ’گاؤ رکھشا دَل‘ کے ایک رکن اور موٹر مکینک 31 سالہ منی رام بابو کے مطابق، ’’یہ ہمارے لیے کچھ کرنے یا پھر مر جانے جیسی صورتحال ہے۔ جب ہم دیکھتے ہیں کہ کس طرح گائیوں کو ٹرکوں میں بھرا ہوتا ہے تو ہمارا خون کھولنے لگتا ہے۔‘‘ اس ہندو شہری کا مزید کہنا ہے، ’’ہم بہت جذباتی ہو جاتے ہیں اور پھر ہم انہیں (اسمگلرز) کو ایک یا دو سبق سکھانے سے خود کو باز بھی نہیں رکھ سکتے۔‘‘