گجرات فسادات: 24 افراد مجرم قرار
2 جون 2016جج پی بی ڈیسائی نے 36 دیگر افراد کو ناکافی شہادتوں کے سبب اُن 69 مسلمانوں کے قتل کے الزام سے بری قرار دیا، جو فسادات کے وقت احمدآباد کے ایک رہائشی کمپلیکس میں پناہ لیے ہوئے تھے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق فیصلہ سنائے جانے کے وقت عدالت میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور متاثرین کے لواحقین نے تالیاں بجائیں اور جج کا شکریہ ادا کیا۔
اس موقع پر ذکیہ جعفری نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’میں خوش ہوں کہ 24 افراد کو مجرم قرار دے دیا گیا ہے لیکن میں اس بات پر غمزدہ بھی ہوں کہ 36 دیگر افراد کو بری قرار دے دیا گیا ہے۔ یہ نا مکمل انصاف ہے اور میں انصاف کے لیے آخر تک لڑوں گی۔‘‘ ذکیہ جعفری کے شوہر احسان جعفری بھی جو سابق کانگریس پارٹی کی طرف سے رکن اسمبلی بھی رہ چکے تھے اس واقعے میں قتل کیے جانے والوں میں شامل تھے۔
بھارتی ریاست گجرات میں 2002ء میں ہونے والے خونریز فسادات کے دوران 1000 سے زائد افراد قتل کر دیے گئے تھے۔ احمد آباد کے رہائشی کمپلیکس میں ہونے والے اس واقعے میں اُس دن کسی ایک ہی مقام پر سب سے زیادہ قتل ہوئے تھے۔
سالوں سے جاری اس مقدمے کی کارروائی کے دوران 300 سے زائد افراد نے گواہیاں دیں۔ اپیلوں، پٹیشنوں اور کئی ملزمان کے انتقال کے سبب یہ کارروائی طویل سے طویل ہوتی چلی گئی۔
استغاثہ مجرم قرار دیے جانے والے تمام افراد کے لیے عمر قید کی سزا طلب کر رہی ہے۔ یہ افراد گلبرگ سوسائٹی کمپلیکس میں پناہ لیے ہوئے مسلمانوں کو جلانے اور انہیں قتل کرنے کے سزاوار ٹھہرائے گئے ہیں۔
گجرات میں ہونے والے فسادات کے حوالے سے موجودہ وزیراعظم نریندر مودی پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ انہوں نے ان فسادات کو، جن میں زیادہ تر مسلمان نشانہ بنے، روکنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ تاہم مودی ان الزامات سے انکار کرتے ہیں۔
یہ فسادات دراصل 27 فروری 2002ء کو ایک ٹرین میں لگنے والی آگ کے نتیجے میں 59 ہندو زائرین کی ہلاکت کے بعد شروع ہوئے تھے۔ آگ لگنے کے اس واقعے کا ذمہ دار ابتدائی طور پر مسلمانوں کو ٹھہرایا گیا تھا۔ اس واقعے کے بعد مشتعل ہندو گجرات میں مسلمان آبادیوں پر چڑھ دوڑے تھے۔ 1947ء میں برطانیہ سے آزادی اور برصغیر کی تقسیم کے بعد سے یہ بدترین مذہبی فسادات تھے۔
اے ایف پی کے مطابق ان فسادات کے سلسلے میں 100 سے زائد افراد کو پہلے ہی مجرم قرار دیا جا چکا ہے۔