گجرات فسادات کے 10 سال
27 فروری 2012بھارتی شہر گودھرا کے نزدیک صابرمتی ایکسپریس کا ایک ڈبہ جل رہا تھا، 59 افراد جن میں بہت سی خواتین اور بچے بھی شامل تھے، ہلاک ہو گئے تھے۔ ان میں سے اکثریت انتہا پسند ہندوؤں کے ایک گروپ کے اراکین کی تھی۔ یہ ہندو زائرین ایودھیا کے اُس مقام سے لوٹ رہے تھے، جہاں اُس سے دس سال قبل ہندو قوم پرستوں نے صدیوں پرانی ایک مسجد، جسے بابری مسجد کہا جاتا تھا، کو منہدم کر دیا تھا۔ اُس واقعے کے بعد بھارتی ریاست گجرات آگ و خون کا میدان بن گیا تھا۔ اسی ریاست میں گودھرا شہر واقع ہے۔ فرقہ وارانہ فسادات کی اس آگ میں قریب ایک ہزار مسلمانوں کا بہیمانہ قتل ہوا۔ کئی روز جاری رہنے کے بعد بھارتی فوج کی تعیناتی سے ان ہنگاموں پر قابو پایا گیا تاہم اُن فسادات کی آگ کے شعلے دس سال بعد تک بھڑکتے رہے۔ حکومت کی جانب سے ان واقعات کی چھان بین کے لیے مقرر کردہ متعدد کمیشنز اس سوال کا جواب اب تک تلاش کر رہے ہیں کہ آیا اُن واقعات کی اصل ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے۔
صدمہ و زخم دور دور تک پھیلے ہوئے
گزشتہ دس برسوں کے دوران گجرات کے فسادات کے بارے میں کافی کچھ لکھا جا چکا ہے۔ انسان کس حد تک ظلم و زیادتی اور نفرت کرنے کے اہل ہو سکتے ہیں۔ ایک معروف بھارتی ماہر نفسیات ارونا بروتا کا کہنا ہے کہ گجرات کا واقعہ اُس ہنگامے میں بچ جانے والوں ہی کے لیے نہیں بلکہ تمام بھارتی سماج کے لیے گہرے صدمے کا باعث ہے۔ ارونا کے بقول’ غصہ وبا کی طرح پھیلتا ہے، جیسے فلو میں جراثیم پھیلتے ہیں۔ پہلے ایک کو لگا پھر دوسرے کو۔ کچھ لوگ کہنے لگے کہ مسلمان بہت بُرے ہوتے ہیں، کچھ نے کہنا شروع کر دیا کہ سکھ خراب ہوتے ہیں، اس طرح نفرت کی آگ پھیلتی جاتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی صورتحال میں یکجہتی کا احساس کہاں سے پیدا ہو سکتا ہے؟‘
بیرن یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی ایک جرمن ماہر بشریات یولیا ایکرٹ 2002 ء سے گجرات میں ہونے والے فسادات کے بارے میں ریسرچ کر رہی ہیں۔ انہیں اس امر پر شدید صدمہ ہے کہ بھارت کی آبادی کی اکثریت کے اندر کسی قسم کی ندامت نہیں پائی جاتی بلکہ انہیں اکثر ایسے ہندوؤں کا سامنا ہوتا ہے، جو ایودھیا کے فسادات کے نتیجے میں ہونے والے قتل عام کو اپنی جیت سمجھتے ہیں۔
صدموں کے شکار افراد کی نفسیات کی ماہر ارونا بروتا کا ماننا ہے کہ گجرات کے فسادات میں بچ جانے والے بچوں کی نفسیاتی صورتحال سب سے زیادہ تشویشناک ہے۔ اُن بھیانک واقعات کے متاثرین کی اگلی نسل اب تک نہ تو یہ سمجھ پائی ہے کہ یہ سب کچھ کیسے ہوا اور نہ ہی وہ اس شدید صدمے سے باہر آ سکی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ گجرات کے فسادات کے بارے میں اسکول کی سطح سے بچوں کے اندر شعور بیدار کرنے اور سیاستدانوں کی طرف سے بھارت کو حقیقی معنوں میں کثیر المذہبی اور کثیر الثقافتی معاشرہ بنانے کی صدقِ دل سے کوشش ہی مسقبل میں ایسے ظالمانہ واقعات سے محفوظ رکھنے کا سبب بن سکتی ہیں۔
رپورٹ: پریا ازل بون/ کشور مصطفیٰ
ادارت: مقبول ملک