گزشتہ برس ڈرون حملوں میں کوئی پاکستانی شہری ہلاک نہیں ہوا، اقوام متحدہ
13 مارچ 2014بین ایمرسن نے بدھ کو جنیوا میں صحافیوں سے گفتگو میں کہا: ’’پاکستان میں امریکا کے ڈرون حملوں میں کمی کے حوالے سے انتہائی اہم پیش رفت بیان کرنے پر میں بہت خوش ہوں۔‘‘
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق انہوں نے کہا کہ 2013ء میں امریکا نے پاکستانی علاقوں پر مجموعی طور پر 27 ڈرون حملے کیے جبکہ 2010ء میں یہ تعداد 128 تھی۔
بین ایمرسن انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیوں میں اقوام متحدہ کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی نگرانی کرتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا: ’’لیکن شاید گزشتہ نو برس کے دوران سب سے اہم بات یہ ہے کہ گزشتہ برس پاکستان کے قبائلی علاقوں میں (ڈرون حملوں کے نتیجے میں) ایک بھی شہری ہلاکت کی اطلاع نہیں ہے۔‘‘
خیال رہے کہ امریکا افغانستان کے ساتھ ملحق پاکستان کے سرحدی قبائلی علاقے کو دہشت گردوں کا گڑھ قرار دیتا رہا ہے۔ واشنگٹن حکام کا مؤقف رہا ہے کہ ان علاقوں میں چھپے ہوئے انتہاپسند سرحد پار افغانستان میں اور دیگر خطوں میں دہشت گردی کے منصوبے بناتے ہیں۔ اس بنا پر واشنگٹن انتظامیہ ڈرون حملوں کو دہشت گردوں کے خلاف کارگر ہتھیار قرار دیتی رہی ہے اور ان کے نتیجے میں متعدد اہم انتہاپسند رہنماؤں کو نشانہ بنایا جا چکا ہے۔
یہ ڈرون حملے پاکستان میں انتہائی غیرمقبول ہیں۔ اسلام آباد حکومت بھی ان حملوں کو ملکی خودمختاری کے خلاف قرار دیتی ہے اور امریکا سے انہیں روکنے کا مطالبہ کرتی رہی ہے۔
امریکا مشتبہ دہشت گردوں کو نشانہ بنانے کے لیے پاکستان کے علاوہ افغانستان اور یمن میں بھی ڈرون طیارے استعمال کرتا ہے۔ ایمرسن نے بتایا کہ پاکستان میں ان حملوں میں کمی کے باوجود یمن اور افغانستان میں صورتِ حال اتنی اچھی نہیں رہی۔
انہوں نے افغانستان میں اقوامِ متحدہ کے ایک مشن کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 2012ء اور 2013ء کے دوران افغانستان میں ڈرون حملوں کے نتیجے میں شہری ہلاکتوں میں تین گُنا اضافہ ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ برس ڈرون حملوں کے نتیجے میں 45 افغان شہری ہلاک ہوئے۔
بین ایمرسن کے مطابق یمن کی صورتِ حال بھی خاصی تشویشناک ہے جہاں ڈرون حملوں میں تیزی آئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ برس کے آخری مہینوں میں یہ حملے بالخصوص بہت بڑھ گئے تھے اور شہری ہلاکتوں میں بھی اضافہ ہو گیا تھا۔ ایمرسن نے بدھ کو یہ باتیں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے میں خطاب کے بعد صحافیوں کو بتائیں۔