1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گزشتہ تین دہائیوں کے مقابلے میں سب زیادہ صحافی جیل میں

13 دسمبر 2016

دنیا بھر میں مختلف حکومتوں کی جانب سے گزشتہ تین دہائیوں کے مقابلے میں رواں برس سب سے زیادہ تعداد میں صحافی جیل بھیجے گئے ہیں۔ صحافیوں کو قید کرنے والے ممالک کی فہرست میں ترکی پہلے نمبر پر آتا ہے۔

https://p.dw.com/p/2UDCw
Türkei Medien Pressefreiheit Einschränkung Verhaftungen Haft Journalisten Journalismus Gefängnis
تصویر: Getty Images/AFP/O. Kose

صحافیوں کے تحفظ کے لیے کمیٹی ’سی پی جے‘ نے اپنی سالانہ رپورٹ جاری کی ہے، جس کے مطابق یکم دسمبر  تک صرف ترکی میں 81 صحافیوں کو قید کیا گیا۔ ان صحافیوں پر ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ دنیا بھر میں صحافت کی آزادی کے لیے کام کرنے والے اس گروپ کا کہنا تھا، ’’ترکی میں سن 2016ء کے اوائل میں ہی پریس کو پابندیوں کا سامنا تھا لیکن ناکام بغاوت کے بعد صحافیوں کو ہراساں کرنے، انہیں گرفتار کرنے اور مختلف نیوز چینلز کو بند کرنے کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔‘‘

LOGO CPJ

رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں رواں برس 259 صحافیوں کو قید کیا گیا جبکہ گزشتہ برس جیل بھیجے جانے والے صحافیوں کی تعداد 199 تھی۔ اس تنظیم نے صحافیوں سے متعلق اعدد و شمار جمع کرنے کا عمل 1990ء میں شروع کیا تھا۔ تب سے لے کر آج تک رواں برس گرفتار ہونے والے صحافیوں کی تعداد سب سے زیادہ بنتی ہے۔

تاہم اس فہرست میں ان صحافیوں کے نام شامل نہیں ہیں، جو اچانک غائب ہو گئے ہیں یا جنہیں غیر ریاستی عناصر کی جانب سے اغوا کر لیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ترکی کے بعد سب سے زیادہ یعنی 38 صحافی چین میں قید کیے گئے۔ بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں گزشتہ دو برسوں کے دوران سب سے زیادہ صحافیوں کو چین میں ہی قید کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، ’’حالیہ چند ہفتوں کے دوران چین ایسے صحافیوں کے خلاف کریک ڈاؤن میں تیزی لایا ہے، جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں یا پھر احتجاجی مظاہروں کے بارے میں لکھتے ہیں۔‘‘

صحافیوں کو قید کی سزائیں سنانے کے حوالے سے تیسرے نمبر پر مصر کا نام آتا ہے۔ سن 2008ء کے بعد ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ صحافیوں کو قید کی سزائیں سنانے کے حوالے سے ایران سرفہرست پانچ ممالک کی فہرست میں شامل نہیں ہے۔ سن 2009ء کے انتخابات سے پہلے ایران میں جن صحافیوں کو قید کی سزائیں سنائی گئی تھیں، ان میں سے زیادہ تر اپنی سزائیں کاٹ چکے ہیں اور انہیں آزاد کیا جا چکا ہے۔