گزشتہ پچاس برسوں میں 2010ء دوسرا گرم ترین سال
20 جنوری 2011یہ اعداد و شمار برطانیہ میں قائم ایک ماحولیاتی تحقیقی ادراے CRU کی طرف سے جاری کیے گئے ہیں۔ اس ریسرچ یونٹ کے سربراہ فل جونز کا کہنا ہے کہ درجہء حرارت میں اضافے کے لحاظ سے 2008 کے علاوہ گزشتہ ایک عشرے میں نظر آنے والی تبدیلیا ں سب سے نمایاں رہیں۔ ’’اقوام متحدہ کی عالمی موسمیاتی تنظیم WMO نے ایک لسٹ تیار کی ہے، جس کے مطابق گزشتہ عشرے کے دوران زمینی درجہء حرارت میں اضافہ سب سے زیادہ اور قابل ذکر رہا۔ قبل ازیں 1998ء میں زمین کے اوسط درجہء حرارت میں اضافہ 0.517 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا تھا، اور یوں تیرہ برس قبل نوے کی دہائی کا وہ سال اس سے پہلی کی کئی دہائیوں کا گرم ترین سال ثابت ہوا تھا۔
زمینی حدت میں مسلسل اضافے کے باعث زمین اور زمین پر فطرت اور ہر طرح کی زندگی کوشدید خطرات کا سامنا ہے۔ حالیہ چند برسوں میں چین، روس اور ارجنٹائن میں قحط سالی کی وجہ سے اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیا جبکہ موسمیاتی تبدیلیوں ہی کے سبب آنے والے سیلاب کے نتیجے میں پاکستان اور چین میں کروڑوں انسان متاثر ہوئے۔ دوسری طرف روس، یورپ اور امریکہ کے چند حصے گزشتہ برس شدید سردی کی لپیٹ میں رہے۔
تحفظ ماحول کے کیوٹو معاہدے کی مدت 2012ء میں ختم ہو رہی ہے۔ پچھلے برس دسمبر میں میکسیکو کے شہر کانکون میں ایک عالمی ماحولیاتی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تھا، جس میں ماحولیاتی تحفظ کے لیے غریب ممالک کی امداد بڑھانے پر اتفاق ہوا تھا۔ کانکون میں اس ماحولیاتی کانفرنس کے آخری لمحات میں زمینی درجہء حرارت میں اضافے کو دو ڈگری سینٹی گریڈ سے کم رکھنے اور ایک ماحولیاتی فنڈ کے قیام پر اتفاق رائے ہوا تھا، جس کے بارے میں وفاقی جرمن وزیر ماحولیات نوربرٹ روئٹگن نے بھی اپنے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا، ’’یہ پہلا موقع ہے کہ عالمی برادری نے دو ڈگری سینٹی گریڈ سے کم اضافے کے ہدف کو باقاعدہ طور پر تسلیم کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جنگلات کے تحفظ، ٹیکنالوجی کے شعبے میں بین الاقوامی تعاون اور مالی وسائل کی طویل المدتی فراہمی کے حوالے سے بھی واضح فیصلے سامنے آئے ہیں۔ ایسے میں میرے خیال میں تحفظ ماحول کے بین الاقوامی عمل کے احیاء کی جانب یہ حقیقی معنوں میں ایک اہم قدم ہے۔‘‘
لیکن ماہرین کے خیال میں عالمی مالیاتی بحران کی وجہ سے گلوبل وارمنگ کے خلاف جنگ سست روی کا شکار ہو چکی ہے۔ قابل تجدید توانائی کے منصوبوں کے لیے مالی امداد میں بھی کمی لائی جا رہی ہے۔
رپورٹ: امتیاز احمد
ادارت: مقبول ملک