گنی کیڑوں کی بیماری: قریب الاختتام
سن 1986 میں 36 لاکھ افراد گنی کیڑوں کی بیماری میں مبتلا تھے۔ یہ بیماری ایشیا اور افریقہ کے اکیس ملکوں میں پائی جاتی تھی۔ اب یہ پیراسائٹ قسم کے کیڑوں سے پھیلنے والی بیماری دنیا بھر سے ختم ہونے کے قریب ہے۔
دنیا سے ختم ہونے والی بیماری
گنی کیڑے پیراسائٹ قسم سے تعلق رکھتے ہیں۔ مؤثر آگہی کی مہم کی وجہ سے یہ بیماری دنیا بھر میں محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ سن 2018 کے ابتدائی تین ماہ کے دوران افریقی ملک چاڈ میں اس کے تین مریض سامنے آئے ہیں۔
کارٹر سینٹر
سابق امریکی صدر جمی کارٹر کے قائم کردہ مرکز نے سن 1996 میں گنی کیڑوں سے پھیلنے والی بیماریوں کے خلاف انٹرنیشنل مہم شروع کی۔ اس مہم کی وجہ سے لاکھوں افراد کو اس مہلک بیماری میں مبتلا ہونے سے بچایا گیا۔ چیچک کے بعد گنی کیڑوں کی بیماری کا خاتمہ ایک اہم پیش رفت ہے۔ یہ واحد بیماری ہے، جس کے لیے کوئی ویکسین یا دوا تیار نہیں کی گئی۔
آلودہ پانی کا استعمال
گنی کیڑوں کی بیماری کا جرثومہ یا پیراسائٹ اُسی وقت جنم لیتا ہے جب انسان بغیر فلٹر کے پانی پیتا ہے یا پھر کھڑے گندے پانی کا استعمال کیا جاتا ہے۔ گندے پانی میں گنی کیڑے کا لاروا پایا جاتا ہے جو پینے سے انسانی جسم میں داخل ہو کر بیماری کا باعث بنتا ہے۔ بدن میں داخل ہونے والا کیڑا نظام ہضم کا حصہ بنتے ہوئے کسی پھوڑے کے اندر سے باہر آنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کی لمبائی 60 سے 100 سینٹی میٹر تک ہوتی ہے۔
کیڑے کا نمودار ہونا
انسانی بدن میں داخل ہونے والے گنی ورم کا نر مر جاتا ہے اور مادہ تقریباً ایک سال بعد انسانی جسم کی ٹانگ یا پاؤں پر بننے والے ایک پھوڑے سے باہر نکلنے کی کوشش کرتی ہے۔ پھوڑا انتہائی شدید درد کا باعث ہوتا ہے۔ بیماری میں مبتلا شخص شدید درد والے پھوڑے کو پانی سے دھونے کی کوشش کرتا تھا اور اس باعث لاکھوں لاروے پانی میں چلے جاتے تھے۔
شدید نقاہت پیدا کرنے والی بیماری
بنیادی طور پر گنی ورم بیماری کے لیے کوئی دوا یا مدافعتی ویکسین دستیاب نہیں ہے۔ اس کیڑے کو روزانہ کی بنیاد پر انسانی بدن سے باہر کھینچا جاتا ہے اور اس کے مکمل باہر نکالنے پر کئی ہفتے درکار ہوتے ہیں۔ اس عرصے میں مریض کو شدید نقاہت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کمزوری کی وجہ سے مریض کو کسی اور بیکٹیریا کی بیماری بھی لاحق ہو سکتی ہے۔ مریض بے بس ہو جاتا ہے۔
کمیونٹی پروگراموں کا سلسلہ
گنی ورم کی بیماری پر کنٹرول بنیادی طور پر حفظانِ صحت کے اصولوں پر عمل کرنے سے پیدا ہوا۔ لوگوں کو صاف پانی پینے کی تلقین کی گئی۔ اس کے علاوہ اس بیماری میں مبتلا افراد کے ساتھ میل ملاپ رکھنے سے اجتناب کرنے پر بھی بیماری کے پھیلاؤ میں کمی واقع ہوئی۔
Only 30 cases in 2017
سن 2017 میں صرف تیس مریض سن 1986 میں جس بیماری کے چھتیس لاکھ مریض تھے اور اکتیس برس بعد ایسے مریضوں کی تعداد تیس ہو کر رہ گئی۔ اس بیماری کے خلاف آگہی دینے کی بین الاقوامی مہم سے اس پر کنٹرول پیدا ہوتا چلا گیا۔ سن 2017 میں افریقی ممالک چاڈ اور ایتھوپیا میں اس مرض کے صرف تیس مریض سامنے آئے۔
گنی ورم بیماری میں مبتلا کتے
سن 2012 میں پہلی مرتبہ کسی کتے میں گنی کیڑے کی بیماری پائی گئی۔ اس سے عالمی سطح پر شدید خدشات بھی پیدا ہوئے۔ چاڈ کے دیہاتی علاقوں کے گندے پانی کے جوہڑوں میں پائی جانے والی مچھلیوں کو کھانے سے کتوں میں یہ بیماری منتقل ہوئی۔ ان مچھلیوں میں گنی کیڑے کا لاروا پایا گیا۔ عام لوگوں کو اس مناسبت سے مفید مشورے دیے گئے اور اب یہ مسلئہ تقریباً ختم ہو کر رہ گیا ہے۔