گوآ کا ’بل فراگ‘، کھانے کی میز پر ’جمپنگ چکن‘
29 جولائی 2010گوآ کے لوگ اپنی گوشت خوری کے لئے مشہور ہیں اور وہاں بہت مہنگے ریستورانوں میں اس مینڈک کی ٹانگوں سے تیار کردہ ایک خاص ڈش، جو بہت ذائقے دار ہوتی ہے، بڑے مہنگے داموں فروخت کی جاتی ہے۔
گوآ کے سینکڑوں دیہات میں ہر سال مون سون کی بارشوں کی دوران رات کے وقت ایسے مینڈک لاکھوں کی تعداد میں کھلی فضا میں نکل آتے ہیں، جن میں سے نر مینڈک دراصل مادہ مینڈکوں کی تلاش میں ہوتے ہیں مگر ان کے ٹرانے کی آواز سن کر عام دیہاتی ان کا شکار کر لیتے ہیں۔
مینڈکوں کی یہ نسل گوآ میں عرف عام میں ’جمپنگ چکن ‘ کہلاتی ہے حالانکہ ایسے مینڈکوں کا کسی مرغی سے تو کوئی تعلق نہیں ہوتا لیکن انہیں یہ نام ان کی مقابلتاﹰ بہت بڑی جسامت کی وجہ سے دیا گیا ہے۔
ان مینڈکوں کے شکار کے لئے دیہاتی عام طور پر خاص وقت کا بے چینی سے انتظار کرتے ہیں۔ ’جمپنگ چکن‘ کے شکار کے لئے مون سون کے موسم میں رات کے وقت بڑی خاموشی ہونی چاہئے اور آسمان بھی بالکل صاف ہونا ضروری ہے۔ اس لئے کہ ابر آلود موسم میں یہ مینڈک پانی میں یا زمین کے نیچے کیچڑ میں ہی رہتے ہیں اور کھلی فضا میں نہیں نکلتے۔
گوآ جانے والے غیر ملکی سیاح اس مینڈک کے گوشت سے تیار کردہ کھانے، خاص طور پر اس کی تیل میں تلی ہوئی ٹانگیں بڑے شوق سے کھاتے ہیں اور عام طور پر ایسی ایک ڈش کی قیمت بھارتی کرنسی میں 80 اور 100 روپے کے درمیان ہوتی ہے۔ یہ قیمت امریکی کرنسی میں 1.7 اور 2.1 ڈالر کے برابر بنتی ہے۔
غیرملکی سیاح گوآ میں ایسے کھانے کے لئے یہ رقم بخوشی ادا کر دیتے ہیں۔ اس لئے کہ یورپی ملک فرانس میں بھی پیرس کے کئی ریستورانوں میں مینڈک کے گوشت سے تیار کردہ ایسی ہی ڈشیں بڑے شوق سے کھائی جاتی ہیں۔ لیکن بہت خاص، قیمتی اور ذائقے دار سمجھی جانے والی زیادہ تر امیر طبقے کی پسندیدہ اس غذا کی فرانس میں بہت زیادہ قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔
بھارت میں عرف عام میں ’جمپنگ چکن‘ یا سائنسی حوالے سے ’بل فراگ‘ کہلانے والے ان مینڈکوں کا شکار صرف دیہاتی لوگ ہی نہیں کرتے بلکہ یہی کام گوآ کے عام مزدور طبقے کے افراد بھی کرتے ہیں۔ اس لئے کہ انہیں ایسے مینڈک مختلف ریستورانوں کو بیچ کر اس سے کہیں زیادہ رقم مل جاتی ہے، جتنی کہ وہ دن بھر محنت مزدوری کر کے کماتے ہیں۔
تحفظ ماحول کے لئے کام کرنے والی تنظیموں اور جانوروں کے تحفظ کے لئے سرگرم عمل کارکنوں کو شکایت ہے کہ بھارت میں ایسے مینڈکوں کے غیر قانونی شکار کے خلاف زیادہ مؤثر عملی اقدامات کئے جانے چاہیئں۔
اگر یہ صورت حال تبدیل نہ ہوئی تو اس وجہ سے ریستورانوں کے مالکان کا کاروبار تو چمکے گا، عام شہریوں کو بھی اضافی آمدنی حاصل ہوتی رہے گی لیکن یہ رویہ طویل المدتی بنیادوں پر مینڈکوں کی اس نسل کے لئے بقا کا مسئلہ بن جائے گا۔
رپورٹ: عصمت جبیں
ادارت: کشور مصطفٰی