گوئتھے انسٹیٹیوٹ کے ستر برس
گوئتھے انسٹیٹیوٹ کی بنیاد 9 اگست سن 1951 کو رکھی گئی تھی۔ جرمنی کے لیے یہ ادارہ بہت تیزی سے جرمن زبان اور ثقافت کے فروغ کا معاون بن گیا۔
میونخ میں آغاز
دوسری عالمی جنگ کے چھ سال بعد ڈوئچے اکیڈمی (ڈی اے) کی جگہ گوئتھے انسٹیٹیوٹ کا باضابطہ افتتاح کیا گیا۔ شروعات میں انسٹیٹیوٹ نے بنیادی طور پر جرمن زبان کے غیر ملکی اساتذہ کی تربیت پر توجہ دی۔ اس تصویر میں گھانا سے جرمن سیکھنے والے طالب علم اپنی میزبان فیملی کے ساتھ میونخ کی سیر کر رہے ہیں۔
جرمنی کا مثبت تشخص
ابتدائی سالوں میں، انسٹیٹیوٹ کا مقصد دوسری عالی جنگ کے بعد جرمنی کے مثبت امیج کو فروغ دینا تھا۔ 1952ء میں پہلا ادارہ یونانی دارالحکومت ایتھنز میں قائم کیا گیا۔ اس کے بعد ممبئی بھارت میں، جہاں ادارے کا نام جرمن انڈولوجسٹ ماکس مُلر کے نام سے منصوب کیا گیا۔
پروپیگنڈا اور جاسوسی کا مرکز
جرمنی کی طرف سے گوئتھے انسٹیٹیوٹ کو شروع کرنے کی سیاسی وجہ ڈوئچے اکیڈمی کے بارے میں منفی تاثر کو بہتر کرنا تھا، جو کہ سن 1925 میں نازی پروپیگنڈے کا ایک آلہ بن چکی تھی۔ 1945ء میں امریکی قابض فوج نے اکیڈمی کو ختم کردیا، ان کے خیال میں یہ نازیوں کا ’یورپ بھر میں پروپیگنڈے اور جاسوسی کا مرکز‘ تھا۔
گوئتھے کے نام پر جاز موسیقی
آنے والے سالوں میں دنیا کے مختلف ملکوں میں مزید گوئتھے انسٹیٹیوٹ کھل گئے۔ مثال کے طور پر، شمالی اور مغربی افریقہ میں جہاں 1950ء اور 1960ء کی دہائی میں نوآبادیاتی نظام کے خاتمے کے بعد کئی نئے ممالک بن گئے۔ اس تصویر میں جرمن سیکسو فونسٹ کلاؤس ڈولڈنگر (انتہائی دائیں طرف) پاکستانی موسیقاروں کے ساتھ دیکھے جاسکتے ہیں۔
جرمن کلچر دنیا کے نقشے پر
1980ء کی دہائی میں جرمن زبان سیکھتے وقت ’لینگویج لیبز‘ کا رجحان عام تھا۔ اس کے بعد سے انسٹیٹیوٹ نے عالمی نیٹ ورک تشکیل دے کر بیرون ملک فعال تمام اداروں کو آپس میں ہم آہنگ کیا۔ آج، 98 ممالک میں 157 انسٹیٹیوٹ جرمن کلچر اور زبان کی تدریس میں سرگرم ہیں۔
ایران میں گوئتھے انسٹیٹیوٹ پر پابندی
سن 1987 میں ہالینڈ کے ایک ٹاک شو میزبان روڈی کیرل نے اس وقت ہلچل مچادی جب انہوں پروگرام میں دکھایا کہ ایران کے انقلابی لیڈر آیت اللہ خمینی پر لوگ مردوں اور خواتین کے زیر جامہ ملبوسات پھینک رہے ہیں۔ تہران حکومت نے غصے میں جرمن سفارتکاروں کو روانہ کردیا، جرمنی کی پروازیں منسوخ کردیں اور گوئتھے انسٹیٹیوٹ کو بند کر دیا۔
مشرق کی جانب ایک نظر
سابقہ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد گوئتھے انسٹیٹیوٹ نے مشرقی یورپ میں اپنے پروں کو پھیلانا شروع کردیا۔ ادارے کے پہلے بانی ارکان کو سابقہ کمیونسٹ ممالک میں بہت زیادہ تبدیلیاں کرنا پڑیں۔ سن 1992 میں جرمن وزیر خارجہ کلاؤس کنکل نے ماسکو میں گوئتھے انسٹیٹیوٹ کا افتتاح کیا۔ اس کے ساتھ سابقہ مشرقی جرمنی میں گوئتھے انسٹیٹیوٹ کے کردار میں اضافہ کیا گیا۔
امن اور افہام و تفہیم کو فروغ دینا
گیارہ ستمبر 2011 کے دہشت گردانہ حملوں نے گوئتھے انسٹیٹیوٹ کی توجہ بھی تبدیل کردی۔ بین الثقافتی مکالمہ اور تفہیم اس کی اولیین ترجیحات بن گئیں۔ انسٹیٹیوٹ اب سول سوسائٹی کو مضبوط بنانے اور تنازعات کو روکنے پر مرکوز ہے۔ اس تصویر میں جنوبی کوریا کے شہر سیول میں آرٹ اور موسیقی کا منصوبہ ’کُنسٹ ڈسکو‘ کی پرفارمنس پیش کی جارہی ہے۔
روبوٹس کے ساتھ رقص
2016ء میں گوئتھے انسٹیٹیوٹ نے ’کلچر سمپوزیم وائمر‘ کا آغاز کیا، جہاں دنیا بھر کے مفکرین دور حاضر کے اہم سوالات پر تبادلہ خیال کرتے ہیں۔ 2019 میں شرکا نے انسانی معاشرے پر ٹیکنالوجی کے اثرات پر تبادلہ خیال کیا۔ تائیوان کی رقاصہ اور موجد ہوانگ یی روبوٹ ’کوکا‘ کے ساتھ ڈانس کر رہی ہیں۔
جرمنی کا مفصل امیج
یہ ادارہ جرمن وزارت خارجہ کے ساتھ مل کر باقاعدگی سے ’ڈوئچلانڈ یاہر‘ یعنی جرمن سال کا اہتمام کرتا ہے۔ ایونٹ کا مقصد جرمنی کے بہتر تشخص کی تشہیر کرنا ہے۔ گزشتہ برس یہ تقریب میکسیکو میں منعقد کی گئی جہاں جرمن چانلسر انگیلا میرکل مہمان تھیں۔ ہر سال اس تقریب میں لاکھوں مہمان شرکت کرتے ہیں۔
ستر برس اور آنے والے کئی سال
کووڈ انیس کی وبا نے گوئتھے انسٹیٹیوٹ میں ڈیجیٹلائزیشن کی ضرورت کو جنم دیا ہے۔ صدر کیرولا لینٹز اور جنرل سیکرٹری یوہانس ایبرٹ کی سربراہی میں یہ ادارہ اپنی سترویں سالگرہ منائے گا۔ اس موقع پر کیرولا کی کتاب جاری کی جائے گی جو کہ آن لائن قارئین کو ادارے کی تاریخ سے متعارف کرائے گی۔