گوادر: ایک اور حملہ، بلوچستان میں امن قائم کرنا مشکل کیوں؟
9 مئی 2024اب تک اس حملے کی ذمہ داری کسی گروپ نے قبول نہیں کی ہے تاہم ماضی میں اس نوعیت کے اکثر حملوں کی ذمہ داری بلوچ عسکریت پسند تنظیمیں قبول کرتی رہی ہیں۔ گزشتہ ماہ 13 اپریل کو صوبے کے شورش زدہ علاقے نوشکی میں بھی ایک مسافر بس سے پنجاب کے 9 شہریوں کو اتار کر شناخت کے بعد ہلاک کیا گیا تھا۔ قبل ازیں تربت میں بھی فائرنگ کے دو واقعات میں پنجاب کے 8 مزدور ہلاک ہوئے تھے۔ اس تمام صورتحال میں سوال یہ ہے کہ بلوچستان میں یہ مسلسل حملے کیوں ہورہے ہیں اور ملک کے رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے میں امن کا قیام اتنا مشکل کیوں ہے؟
سربندر گوادر میں ٹارگٹ کلنگ کا تازہ ترین واقعہ کس طرح پیش آیا
گوادر میں تعینات ایک سینئر سکیورٹی اہلکار زاہد اکبر نے بتایا ہے کہ سربندر میں فائرنگ کا واقعہ فش ہاربر جیٹی کے قریب پیش آیا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتےہوئے انہوں نے کہا ، "یہ ایک دہشت گردی کا واقعہ ہے جس میں پھر بے گناہ افراد کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ ہلاک ہونے والے افراد پنجاب کے علاقے خانیوال سے کچھ عرصہ قبل یہاں منتقل ہوئے تھے۔ یہ افراد یہاں ایک سیلون میں کام کرتے تھے۔ مقتولین آپس میں رشتہ دار تھے اور وہ رات گئے سیلون سے اپنے رہائشی کوارٹر منتقل ہوئے تھے فائرنگ کے وقت تمام افراد سو رہے تھے۔"
زاہد اکبر کا کہنا تھا کہ واقعے کی تحقیقات شروع کردی گئی ہیں اور حملے میں ملوث افراد کی گرفتاری کے لیے گوادر کے مختلف علاقوں میں سرچ آپریشن کا سلسلہ جاری ہے۔
انہوں نے مزید کہا، "گوادر، پسنی، تربت اور پنجگور سمیت صوبے کے دیگر مختلف علاقوں میں بڑے پیمانے پر پنجاب او ر سندھ سے تعلق رکھنے والے افراد محنت مزدوری کرتے ہیں۔ ان افراد کو ایک منظم منصوبے کے تحت نشانہ بنایا جارہا ہے۔ جو عناصر ان حملوں میں ملوث ہیں وہ اپنے مقاصد میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔
شہری علاقوں میں حملوں سے عدم تحفظ کا بڑھتا ہوا رجہان
گوادر میں حق دو تحریک کے مقامی رہنماء حضور بخش بلوچ کہتے ہیں کہ معصوم شہریوں کے قتل کے بڑھتے ہوئے واقعات نے صوبے کے کئی علاقوں میں لوگوں کو عدم تحفظ کا شکار کردیا ہے۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، "بلوچستان کی شورش میں اضافے کی بنیادی وجہ وہ حکومتی بے حسی ہے جو کہ اس ضمن میں اختیار کی گئی ہے۔ آج گوادر میں جو واقعہ پیش آیا ہے اس طرح کے واقعات اب یہاں معمول کا حصہ بنتے جارہے ہیں۔ حکومتی پالیسیوں کے اثرات عام شہریوں پر پڑ رہے ہیں۔ اگر افہام وتفہیم سے صوبے کے دیرینہ معاملات کے حل کے لیے اقدامات کیے جاتے تو آج صورتحال اس قدر خراب نہ ہوتی۔"
حضور بلوچ کا کہنا تھا کہ صوبے کے شورش زدہ بلوچ اکثریتی علاقوں میں عوامی اعتماد کی بحالی پر خصوصی توجہ دے کر حکومت قیام آمن کی صورتحال میں خاطرخواہ بہتری لاسکتی ہے۔
انہوں نے کہا، "لوگوں کی احساس محرومی کے خاتمے پر حکومت کوئی خاص توجہ نہیں دے رہی صرف بیانات سے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ رہائشی علاقوں کے حدود میں بڑھتے ہوئے حملوں کی روک تھام اس وقت تک ممکن نہیں ہوسکتی جب تک ریاستی اداروں پر مقامی لوگوں کا مکمل اعتماد بحال نہیں ہوتا۔"
گوادر جیسے حساس زون میں حملوں کے اصل محرکات کیا ہیں؟
اسلام آباد میں مقیم سکیورٹی امور کے تجزیہ کار فرمان خان کہتے ہیں کہ بلوچستان میں قیام آمن کی بحالی کے لیے سکیورٹی پلان کا از سرنو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، "بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کی یہ نئی لہر واضح کرتی ہے کہ عسکریت پسند تنظیموں نے حکومت کو دباؤ میں لانے کے لیے اب شاید نئی حکمت عملی مرتب کی ہے۔ آج گوادر میں جو واقعہ پیش آیا ہے اس سے یہ پیغام ملتا ہے کہ گوادر جیسے حساس زون میں حملے کس قدر آسانی کے ساتھ کیے جاسکتے ہیں۔ یہ تسلسل اگر برقرار رہا تو شورش زدہ علاقوں میں سکیورٹی خدشات مزید بڑھ جائیں گے۔"
فرمان خان کا کہنا تھا کہ سی پیک کے مرکز گوادر اور ملحقہ علاقوں میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات سے صوبے میں غیر ملکی سرمایہ کاری پر بھی انتہائی منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا، "اس وقت پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ ملک میں سکیورٹی کے دیرینہ معاملات کو جس طرح دیکھ رہی ہے ان میں کئی امور ایسے ہیں جن کا از سرنو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ رہائشی علاقوں میں دہشت گردی کے جو واقعات پیش آرہے ہیں ان سے حکومتی رٹ پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ موجودہ حکومت نے مفاہمتی پالیسی کو بھی آگے بڑھانے کی بات کی ہے اگر اس معاملے میں پیش رفت سامنے آتی ہے تو معاملات میں بہتری کی توقع کی جا سکتی ہے۔"