گوانتامو بے کے قیدیوں کی الیکٹرانک نگرانی کے لیے شاہ عبداللہ کی تجویز
27 اپریل 2011شاہ عبداللہ کے بیان پر مبنی خفیہ سفارتی پیغام جرمن ہفت روزہ ’ڈیر شپیگل’ نے شائع کیا ہے، جو ذرائع ابلاغ کے ان اداروں میں سے ایک ہے، جنہیں وکی لیکس کی ویب سائٹ سے امریکہ کے خفیہ سفارتی پیغامات حاصل ہوئے تھے۔
ڈیر شپیگل نے یہ پیغام اپنی ویب سائٹ پر شائع کیا ہے، جو بنیادی طور پر بائیس مارچ 2009ء کو جاری ہوا تھا۔ اس بیان میں شاہ عبداللہ نے کہا تھا کہ گوانتانامو بے سے رہائی پانے والے قیدیوں پر مستقبل میں نظر رکھنے کے لیے انہیں الیکٹرانک چِپس لگا دی جانی چاہییں۔
انہوں نے یہ بات اس وقت امریکی صدر باراک اوباما کے مشیر برائے انسداد دہشت گردی جان برینن سے ریاض میں ملاقات کے دوران کہی تھی۔ انہوں نے ایران، عراق اور مشرق وسطیٰ کے امور کے علاوہ گوانتانامو بے کے حراستی کیمپ پر بھی بات چیت کی تھی، جہاں سعودی عرب کے متعدد شہری قید ہیں۔
باراک اوباما نے جنوری 2009ء میں ارادہ ظاہر کیا تھا کہ اس حراستی کیمپ کو بند کر دیا جائے گا۔ شاہ عبداللہ نے اسی تناظر میں اپنی تشویش کا اظہار کیا تھا کہ اگر قیدیوں کو رہا کیا جائے تو انہیں قابو میں کیسے رکھا جا سکتا ہے۔
اس پیغام کے مطابق انہوں نے کہا تھا، ’میرے ذہن میں بس یہ بات آئی‘۔
اس پیغام کے مطابق شاہ عبداللہ کا کہنا تھا کہ الیکٹرانک چپ میں رہائی پانے والے قیدی کے بارے میں معلومات موجود ہوں اور اس کی نگرانی ’بلو ٹوتھ‘ سے کی جائے۔
انہوں نے کہا تھا کہ ایسا گھوڑوں اور بازوں کے ساتھ کیا جا چکا ہے۔ اس پر برینن نے جواب دیا تھا کہ گھوڑوں کو اچھے وکلاء دستیاب نہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ ایسی تجویز کو امریکہ میں قانونی رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ تاہم انہوں نے تسلیم کیا تھا کہ رہا ہونے والے قیدیوں کی خبر رکھنا بہت اہم ہے۔ انہوں نے واشنگٹن واپسی پر اس مسئلے پر متعلقہ حکام سے بات کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
خیال رہے کہ گوانتانامو بے کا حراستی کیمپ کیوبا میں امریکہ کے زیر انتظام قائم ہے اور وہاں مشتبہ دہشت گردوں کو رکھا جا رہا ہے۔
رپورٹ: ندیم گِل / خبر رساں ادارے
ادارت: امجد علی