1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گوانتانامو سے چار قیدیوں کی فوری سعودی عرب منتقلی کا اعلان

علی کیفی روئٹرز
5 جنوری 2017

امریکی حکام کے مطابق چوبیس گھنٹے کے اندر اندر گوانتانامو بے کے فوجی حراستی کیمپ سے چار قیدیوں کو سعودی عرب منتقل کر دیا جائے گا۔ دوسری طرف نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ مزید کسی قیدی کی گوانتانامو سے رہائی کے حق میں نہیں ہیں۔

https://p.dw.com/p/2VJRP
Kuba US-Gefangenlager Guantanamo Bay
تصویر: picture-alliance/dpa/US Navy/Shane T. McCoy

اس فیصلے کو اس کیمپ کے قیدیوں کی تعداد میں کمی کے سلسلے میں موجودہ امریکی صدر باراک اوباما کی جانب سے اپنے دورِ صدارت کے آخری اقدامات میں سے ایک قرار دیا جا رہا ہے۔ نیوز ایجنسی روئٹرز نے امریکی حکام کی جانب سے بدھ کو کیے جانے والے اعلان کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ بیس جنوری کو آئندہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حلف برداری سے پہلے پہلے گوانتانامو بے سے اُنیس قیدیوں کو کم از کم چار مختلف ملکوں میں منتقل کر دیا جائے گا، جن میں اٹلی، عمان اور متحدہ عرب امارات بھی شامل ہیں۔

بتایا گیا ہے کہ ان منتقلیوں کے بعد بھی گوانتانامو بے میں چالیس کے قریب قیدی باقی رہ جائیں گے۔ واضح رہے کہ صدر باراک اوباما ہمیشہ اس عزم کا اظہار کرتے رہے ہیں کہ وہ کیوبا میں امریکی نیوی کے ایک اڈے پر قائم اس متنازعہ حراستی کیمپ کو بند کر دیں گے۔ اوباما کے بعد صدر کے عہدے پر آنے والے ٹرمپ نے اس کیمپ کو برقرار رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔

روئٹرز کے مطابق اوباما انتظامیہ نے گزشتہ مہینے ہی کانگریس کو ان قیدیوں کی منتقلی کے پروگرام سے آگاہ کر دیا تھا۔ جن اُنیس قیدیوں کو منتقل کیا جا رہا ہے، وہ اُن تئیس قیدیوں میں شامل ہیں، جنہیں ابتدائی سماعت کے بعد اس قدر ’محفوظ‘ قرار دیا گیا تھا کہ اُنہیں دوسرے ملکوں میں منتقل کیا جا سکتا ہے۔

USA Protest gegen Guantanamo Bay in Washington
واشنگٹن میں گوانتانامو بے حراستی کیمپ کے خلاف جنوری 2016ء میں منظم کیے جانے والے ایک احتجاجی مظاہرے میں مظاہرین اس کیمپ کے قیدیوں کا لباس پہنے ہوئے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa/J. Lo Scalzo

منگل کے روز ہی ڈونلڈ ٹرمپ نے اس خیال کا اظہار کیا تھا کہ اُن کے خیال میں گوانتانامو بے میں موجود تمام قیدیوں کو بدستور حراست میں رکھا جانا چاہیے گو بہت سی ایجنسیاں اپنی رپورٹوں میں ان میں سے کئی ایک قیدیوں کے بارے میں یہ کہہ چکی ہیں کہ اُنہیں کہیں اور بھیجا جا سکتا ہے۔ اپنی ایک ٹویٹ میں ٹرمپ نے لکھا:’’ گِٹمو (گوانتانامو) سے مزید کوئی قیدی رہا نہیں کیے جانے چاہییں۔ یہ بہت ہی خطرناک لوگ ہیں اور انہیں واپس میدانِ جنگ میں جانے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔‘‘

وائٹ ہاؤس کی جانب سے ٹرمپ کے اعتراضات کو مسترد کر دیا گیا اور کہا گیا کہ گوانتانامو سے قیدیوں کی منتقلی کا عمل ٹرمپ کے اپنا عہدہ سنبھالنے تک جاری رہے گا۔

یہ پتہ نہیں چل سکا ہے کہ جن چار قیدیوں کو سعودی عرب منتقل کیا جا رہا ہے، اُن کا تعلق کس ملک یا کن ملکوں سے ہے۔ گزشتہ سال اپریل میں واشنگٹن اور ریاض حکومتوں کے مابین طویل مذاکراتی عمل کے بعد طے ہونے والی ایک ڈیل کے تحت گوانتانامو سے یمن سے تعلق رکھنے والے نو قیدیوں کو سعودی عرب منتقل کیا گیا تھا۔

USA Alltag im  Gefangenenlager der Guantanamo Bay Naval Base
صدر باراک اوباما ہمیشہ اس عزم کا اظہار کرتے رہے کہ وہ کیوبا میں امریکی نیوی کے ایک اڈے پر قائم اس متنازعہ حراستی کیمپ کو بند کر دیں گےتصویر: Getty Images/John Moore

اِس آخری منتقلی سے پہلے گوانتانامو میں قیدیوں کی تعداد اُنسٹھ تھی۔ ان میں سے دَس ایسے ہیں، جنہیں گیارہ ستمبر 2001ء کے دہشت پسندانہ حملوں کے الزام میں ملٹری کمیشنز کے سامنے مقدمات کا سامنا ہے۔ تقریباً دو درجن قیدی ایسے ہیں، جن پر کوئی فرد جرم تو عائد نہیں کی گئی ہے تاہم اُن کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ وہ اس قدر خطرناک ہیں کہ اُنہیں رہا نہیں کیا جا سکتا۔

جب 2009ء میں اوباما نے صدر کا عہدہ سنبھالا تھا تو گوانتانامو میں قیدیوں کی تعداد 242 تھی۔ اوباما اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود کانگریس میں ری پبلکن ارکان کی زبردست مخالفت کی وجہ سے اس کیمپ کو بند کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔