گودھرا کیس: گیارہ افراد کو سزائے موت
1 مارچ 2011واضح رہے کہ گودھرا میں ہونے والے اس واقعے کے نتیجے میں گجرات کی ریاست ہندو مسلم فسادات کی لپیٹ میں آ گئی تھی۔ ہندوستان کی تاریخ میں یہ انیس سو ستاون کی تقسیم کے بعد سب سے خوں ریز اور جان لیوا دن تھے، جس نے بھارت کی سیکیولر ریاست کو بری طرح جھنجوڑ کے رکھ دیا تھا۔
منگل کو احمد آباد کی عدالت میں ہونے والی سماعت کے وقت چورانوے افراد پیش ہوئے۔ یہ تمام کے تمام مسلمان تھے۔ ان میں سے تریسٹھ افراد کو عدالت نے بری کر دیا۔
عدالتی فیصلے سے ریاست کے ہندو گروپس کے اس الزام کی تصدیق ہوئی ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ اجودھیا سے واپس لوٹنے والے ہندوؤں کی ٹرین کو مسلمانوں نے دانستہ آگ لگائی تھی۔ اس سے قبل قومی سطح پر کی جانے والی ایک تفتیش کے مطابق ٹرین میں آگ حادثاتی طور پر لگی تھی۔
عدالتی فیصلہ سنائے جانے کے موقع پر احمد آباد میں سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے تھے۔ خدشہ تھا کہ فیصلے کے بعد کہیں مذہبی فسادات نہ پھوٹ پڑیں تاہم کسی ناخوشگوار واقعے کی اطلاع موصول نہیں ہوئی ہے۔
گجرات کی مسلمان تنظیمیں ریل کو آگ لگانے کے واقعے کی ہمیشہ نفی کرتی رہی ہیں۔ واقعے کے اہم ملزم مولوی عمرجی کو عدالت نے گزشتہ ہفتے بری کر دیا تھا۔
اس وقت اور آج کے ریاستی وزیرِ اعلیٰ نریندر مودی پر ملک کے سیکیولر حلقے، جن میں ہندو اور مسلمان دونوں شامل ہیں، الزام عائد کرتے رہے ہیں کہ گودھرا واقعے کے بعد ہونے والے فسادات میں مسلمانوں کے قتلِ عام کو روکنے میں انہوں نے دانستہ غفلت سے کام لیا۔ مودی بھارتیہ جنتا پارٹی کے اہم رکن اور بعض مبصرین کے اندازے کے مطابق اگلے انتخابات میں اپنی جماعت کی جانب سے وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار بھی ہو سکتے ہیں۔
رپورٹ: شامل شمس⁄ خبر رساں ادارے
ادارت: امتیاز احمد